بلا عنوان


ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لکھاری موبائلوں والے لطیفے مزاح کے طور پر شامل کر کے کہانی کے ڈائیلاگ مکمل کرتے ہیں۔
مالک جیسی فلم کو آن ائر کروانے کے لئے عاشر عظیم کو کیا کچھ نہیں کرنا پڑا اور بالآخر ایک کوالٹی کا ڈرامہ اور فلم بنانے کے بعد وہ اتنے بد دل ہوئے کہ انڈسٹری چھوڑ کر کینیڈا میں ٹرک چلانے لگ گئے۔

ہمارے ہاں اول تو فلمیں بنتی نہیں اور جو چند ایک بنتی ہیں ان میں معیار تلاش کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کے جس چیلنج کے ساتھ ہم گزشتہ برسوں سے نبردآزما تھے اس کا اثر فلم انڈسٹری پر صرف اتنا پڑا کہ دہشت گردی کے موضوع پر فل سکیل گنتی کی چند فلمیں ہی بن پائی ہیں (میری یاداشت میں جو نام آ رہے ہیں ان میں وار، زیرو۔ ٹو۔ ون شاید کوئی ایک آدھ اور ہو)

سفارتی محاذ پر کی جانے والی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن الاقوامی تعلقات عامہ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھ پر یہ بات واضح ہے کہ اندرونی استحکام کے بغیر سرحدوں کے پار مقابلہ بے معنی ہے۔

کاروباری دنیا بھی سیٹھ حضرات سے بھری پڑی ہے جہاں معیار سے زیادہ منافع غور طلب ہے، جبکہ عالمی منڈی میں معیار کے بنا آپ زیادہ دیر نہیں رہ سکتے۔ پھر ہمارے ہاں چونکہ کوالٹی نامی ایک ادارے کا بس نام ہی ہے۔ اگر کوئی باختیار باشعور بھی ہوتا تو وہ کرپشن سے پہلے ملاوٹ کو سب سے سنگین جرم قرار دیتا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے معصوم بچے کھاد ملا دودھ پی رہے ہیں لیکن ہم بے بس ہیں۔

اب لے دے کر ایک فلم انڈسٹری یا میڈیا جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے رہ گیا ہے۔ اور اس کے کچھ حالات اوپر کی سطور میں بیان کیے جا چکے ہیں۔

اگر یہ تینوں پلیٹ فارم (سفارتی محاذ، کاروباری عالمی منڈی اور میڈیا یا سفارتکار، سیٹھ، فلم میکر) کشمیر کے لئے کچھ نہیں کر پاتے تو پھر باقیات صرف گفتار کے غازی ہیں۔ ہمارا زبانی جمع خرچ مظلوم کشمیریوں کے کسی کام کا نہیں۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).