جو بائیڈن کی ویڈیو کے معاملے پر ’وائس آف امریکہ اُردو کے پانچ ملازمین معطل‘


وائس آف امریکہ کی اُردو سروس کے سوشل میڈیا پر امریکی صدارتی انتخاب میں رپبلکن پارٹی کے امیدوار اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن کی ویڈیو نشر کیے جانے کے معاملے پر سوشل میڈیا ایڈیٹر سمیت اُردو سروس کے پانچ ارکان کو معطل کیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ کی اُردو سروس کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ میں حکومتی فنڈنگ سے چلنے والے نشریاتی ادارے کی مدیر برائے ویب اور سوشل میڈیا تابندہ نعیم کو بدھ کو معطل کیا گیا جبکہ ان سے قبل چار کنٹریکٹ ملازمین کو بھی معطل کیا گیا ہے۔

ان ملازمین میں مذکورہ ویڈیو تیار کرنے والی پروڈیوسر اور وی او اے اُردو کی سوشل میڈیا انچارج کے علاوہ ویب سروس سے منسلک صحافی بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وائس آف امریکہ کے غیر ملکی صحافیوں کو ’وطن واپس جانا پڑ سکتا ہے‘

ٹرمپ، پوتن کی وجہ سے صحافیوں کی نوکریاں ختم

امریکہ: ’صحافی دشمن نہیں ہیں‘

وی او اے کے رکن کا کہنا تھا کہ ان چاروں ملازمین کو منگل کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے جن میں انھیں آگاہ کیا گیا ہے کہ تسلی بخش جواب نہ دینے کی صورت میں ان کے ادارے سے معاہدے 19 اگست سے ختم کر دیے جائیں گے۔

وائس آف امریکہ کے ذرائع کے مطابق ان میں سے تین کنٹریکٹ ملازمین اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے وائس آف امریکہ کے نگراں ادارے یو ایس ایجنسی آف گلوبل میڈیا کے حکام کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف دے چکے ہیں جبکہ ایک پروڈیوسر نے پیشی سے انکار کرتے ہوئے قانونی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔

جو بائیڈن

وائس آف امریکہ اردو پر نشر کی گئی جو بائیڈن کی ویڈیو کو ادارے کے حکام کی جانب سے صحافتی اقدار اور وی او اے کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا گیا

بی بی سی نے اس سلسلے میں وی او اے اردو کے سربراہ سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ وائس آف امریکہ میں عموماً کنٹریکٹ ملازمین کو انتظامی اختیارات نہیں دیے جاتے اور صرف مستقل ملازمین کے پاس ایسے عہدے ہوتے ہیں۔

جو بائیڈن کی ویڈیو میں کیا تھا؟

یہ معاملہ ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی 21 جولائی کو امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم سے آن لائن خطاب کے بعد شروع ہوا تھا۔

اس تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو پہلے دن مسلمان ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندی ختم کر دیں گے۔

اس ویڈیو میں الہان عمر اور راشدہ طلیب جیسے مسلمان اراکینِ کانگریس کی موجودگی اور مسلمانوں کو جو بائیڈن کو ووٹ دینے کی ترغیب پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی حلقوں نے سوشل میڈیا پر اعتراض کیا تھا اور اسے انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا تھا۔

اس ویڈیو کے بارے میں شکایات سامنے آنے کے بعد اسے وائس آف امریکہ اُردو نے اپنے سوشل میڈیا سے ہٹا لیا تھا اور حکام نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔

وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں یہ تحقیقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب گذشتہ ماہ ہی یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے نئے سربراہ مائیکل پیک نے کہا تھا کہ امریکہ میں وائس آف امریکہ کے ساتھ منسلک بیرون ملک سے آئے صحافیوں کے ویزوں کی مدت ختم ہونے کے بعد ان میں توسیع نہیں کی جائے گی جس کے بعد انھیں اپنے وطن واپس جانا ہو گا۔

ایجنسی فار گلوبل میڈیا کی جانب سے ممکنہ طور پر اس اقدام سے وہ غیر ملکی صحافی متاثر ہوں گے جنھیں ایکسچینج پروگرام کے تحت جے ون ویزے پر امریکہ بلایا گیا لیکن اس اقدام کے بعد ان لوگوں کے ویزوں میں توسیع روکی جا سکتی ہے اور ایسے میں انھیں اپنے وطن واپس لوٹنا ہو گا۔

اس صورتحال میں وائس آف امریکہ کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اردو سروس کی کم از کم تین خاتون صحافی اس سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک خاتون صحافی ابصا کومل حال ہی میں امریکہ پہنچی ہیں تاہم انھیں ملازمت کا کانٹریکٹ جاری نہیں کیا جا رہا۔

خیال رہے کہ وی او اے کی اردو سروس میں 40 کے قریب افراد کام کرتے ہیں جن میں سے بیشتر سالانہ معاہدوں پر کام کرتے ہیں جن کی سالانہ تجدید ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp