ہوم اکنامکس، عدیل، اور مثالی خاتون خانہ


\"zunaira-saqib\"سوشل میڈیا پر گھومتی گھامتی ایک پوسٹ دیکھی۔ ہوم اکنامکس کی آٹھویں جماعت کی کتاب میں سے ایک صفحہ تھا۔ عنوان تھا \”خاتون خانہ کے لئے وقت کے گوشوارے کا مثالی خاکہ\”۔ یہ مثالی گوشوارہ بتاتا ہے کہ ایک بہترین خاتون خانہ بننے کے لئے خاتون صبح 5 بجے اٹھ اکر نماز فجر ادا کرے۔ ساڑھے 5 سے 7 بجے تک ناشتہ اور اسکول دفتر جانے کی تیاری میں بچوں اور شوہر کی مدد کرے۔ ان کے جانے کے بعد 4 گھنٹے گھر اور باورچی خانے کی صفائی میں لگائے پھر دوپہر 1 بجے نماز ظہر ادا کرے وغیرہ وغیرہ۔ یہ مثالی خاکہ رات کے 11 بجے تک بنایا گیا ہے۔ یقین جانیے مجھے پڑھ کر بالکل غصّہ نہیں آیا بس یادوں کے بہت سے جھروکے کھل گئے۔ مجھے نہیں معلوم اب اسکولوں کیا حالات ہیں لیکن جس زمانے میں ہم نے آٹھویں جماعت میں قدم رنجا فرمایا تھا تو ہوم اکنامکس لڑکیوں کے لئے ایک لازمی مضمون تھا۔ لڑکوں کے پاس آپشن موجود تھی کہ وہ الیکٹرانکس یا کسی اور مضمون کا انتخاب کر سکتے تھے۔ ہوم اکنامکس کے مضمون میں لڑکیوں کو بہت سارے ایسے کام سیکھائے جاتے تھے جو روزانہ کی بنیاد پر گھر چلانے میں مدد دیتے ہیں۔ گھر بھی ایک ادارہ ہے اور اس کو چلانے والے سمجھتے ہیں کہ گھر کے کام کبھی نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں۔ تو اس مضمون میں ہم نے سلائی کڑھائی سے کام شروع کیا۔ طرح طرح کے ٹانکے لگانا سیکھے۔ پھر بننے کی باری آ گئی۔ چھوٹے چھوٹے موزوں سے شروع کر کے مفلر تک بنے گئے۔ ساتھ ساتھ کھانا پکانے کی طرف بھی خوب دھیان تھا۔ اچار ڈالنا سکھایا گیا، قورمے پر تجربے ہوئے اور پلاؤ کی شامت لائی گئی۔

ہماری جماعت میں ایک شرارتی سا لڑکا تھا عدیل۔ جہاں باقی لڑکے لڑکیوں سے بات کرنے سے بھی گھبراتے تھے اس کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ لڑکیوں سے بھی وہ ایسے ہی بات کرتا جیسے لڑکوں سے۔ ہمارے ساتھ کھیلنے سے اس کی معصوم سی \”مردانگی\” کو کوئی ٹھیس نہ پہنچتی۔ مذاق کرنا، کھیلنا، اور ساتھ بیٹھ کر پڑھنے میں اس نے کبھی عامیانہ رویہ اختیار نہ کیا۔ جب ہم آٹھویں کلاس میں گئے اور ہوم اکنامکس کے مضمون کے بارے میں بتایا گیا تو عدیل ہی تھا جس نے سب سے پہلے پوچھا کہ کیا لڑکے یہ کورس نہیں پڑھ سکتے؟ لڑکے تو چھوڑیں کلاس کی لڑکیوں نے بیچارے کا وہ مذاق اڑایا کہ میں نے اس کو پہلی بار شرمندہ ہو کر جھنپتے ہوئے دیکھا۔ جب ہم ہوم اکنامکس کے \”مثالی خاتون خانہ\” بننے کے عمل سے گذرتے ہوئے اچار ڈال رہے ہوتے تو جانے کہاں سے عدیل آن ٹپکتا۔ ہنستا کھیلتا ہم سے ترکیبیں پوچھتا جاتا، ہمارا مذاق اڑاتا، باتیں کرتا اور چلا جاتا۔ جس دن سب لڑکیاں امتحان کے لئے اپنی اپنی اچار کی بوتلیں لائیں اس دن عدیل بھی اپنے گھر سے ایک بوتل لایا۔ کچھ ڈرتے کچھ ہنستے اس نے بتایا کے ہماری بتائی ہوئے ترکیبوں کی مدد سے اس نے بھی گھر میں اچار ڈالا تھا۔ مجھے یاد نہیں کے اس کے اچار کا ذائقہ کیسا تھا لیکن مجھے اس کی آنکھوں کی چمک یاد ہے، مجھے یاد ہے کہ پہلی دفع مجھے احساس ہوا کے اس کو کھانا پکانے کا کتنا شوق تھا۔

\"home-economics\"ہوم اکنامکس کا کورس ختم ہو گیا اور پھر اسکول بھی۔ مجھے نہیں معلوم عدیل اب کہاں ہے۔ کیا وہ ایک شیف بن گیا ہے یا زندگی اور روزگار کے گھن چکر میں پھنسا \”مردوں\” والے کوئی کام کر رہا ہے۔ ہوم اکنامکس کے مضمون کی تفصیل میں جائیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ کام ایسے ہیں جو کہ ہر کر کسی کو آنے چاہیے۔ گھر میں چھوٹی موٹی سلائی، کھانا بنانا، سبزیوں اور پھلوں کی غذایت اور افادیت کا پتا ہونا وغیرہ، یہ سب ایسی معلومات ہیں جو کسی بھی انسان کو، جنس سے بالاتر ہو کر، زندگی میں مدد دے سکتی ہیں۔ لیکن یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر لڑکوں کو اس سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ یہ عام تصور ہے کہ اگر مردوں کو ایسی کوئی ضرورت پڑے تو ان کاموں کے لئے بیوی، ماں، یا بیٹی حاضر ہیں۔ جو ضرورت پڑنے پر یہ سارے کام ان کے دست بدست حاضر کر دیں گی۔ اور لڑکیوں کو ایسے دل جان سے یہ سب سکھایا جاتا ہے کہ جیسے ان کو زندگی میں سوائے گھر سنبھالنے کے کوئی اور کام نہیں پڑنے والا۔

مثالی خاتون خانہ کا تصور اچھا لگتا ہے اگر ایک مثالی مرد، مثالی شوہر، مثالی بیٹے کا تصور بھی لڑکوں کو پڑھایا جاتا ہو۔ یہاں بھی کہتی چلوں کہ مجھے لڑکوں کو ہوم اکنامکس نہ پڑھانے پر اتنا ہی اعتراض ہے جتنا کہ لڑکیوں کو \”باہر\” کے کام نہ سکھانے پر۔ لڑکیوں کو گھر میں چھوٹے موٹے سوئچ ٹھیک کرنا، فیوز بدلنا اور ٹائر تبدیل کرنے کا کام ایسے ہی آنا چاہیے جیسے لڑکوں کو چھوٹا موٹا کھانا پکانے اور کپڑے استری کرنے کا۔ اگر یہ سوچ ہے کہ ساتھ چلنا ہے تو ساتھ ذرا برابری کا دونوں طرف سے ہونا چاہیے۔ خواتین لائن میں اتنی ہی دیر کھڑی ہوں جتنے دیر بیچارے لڑکے کھڑے ہوتے ہیں۔ گاڑی کو دھکا بھی لگائیں اور ضرورت پڑنے پر ٹائر بھی تبدیل کر لیں۔ نہ تو کھانا پکانے سے لڑکے لڑکی بن جاتے ہیں اور نہ ٹائر بدلنے سے لڑکیوں کی شان میں فرق پڑتا ہے۔ مثالی گھر اس وقت بنتے ہیں جب میاں بیوی، بہن بھائی، ماں باپ مل کر گھر کے اور باہر کے کام کرتے ہیں۔ گھر ایک ادارہ ہے اور ہم سب کی ذمہ داری۔۔۔ یہ ہمارے دقیانوسی تصورات اور کاموں کو اصناف سے منسلک کر دینے سے نہ جانے ہم نے کتنے عدیل جیسے لوگوں کے خواب توڑ دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments