ہیٹ ویو: یورپی شہر ٹھنڈی سڑکوں، درختوں، ہریالی اور پانی کے استعمال سے شدید گرمی کے اثرات کیسے کم کر رہے ہیں؟


یورپ

وسطی لندن میں گذشتہ ہفتے تقریباً چھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ لگاتار چھ دنوں تک درجہ حرارت 34 ڈگری یا اُس سے زیادہ رہا

گذشتہ بدھ کو وسطی لندن میں بلند درجہ حرارت کا طویل ترین سلسلہ اُس وقت ریکارڈ کیا گیا جب تقریباً چھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ لگاتار چھ دنوں تک درجہ حرارت 34 ڈگری یا اُس سے زیادہ رہا۔

تفریح کی غرض سے جو لوگ ساحل یا دیہی علاقوں کی جانب گئے ہوں گے وہ تو شاید نسبتاً کم درجہ حرارت سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے مگر زیادہ تر شہری اپنے گھروں میں مقید ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق اب یورپ کی تقریباً تین چوتھائی آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔

مغربی یورپ کا زیادہ تر حصہ رواں برس اگست کے مہینے میں شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ماحولیات پر انسانی اثرات میں اضافے کے باعث موسم گرما میں ہیٹ ویوز ماضی کی نسبت مستقبل میں زیادہ عام ہو جائیں گی۔

تو ایسی صورتحال میں کوئی بھی شہر اپنے شہریوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟

شہر کیوں گرم ہو رہے ہیں؟

دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کا زیادہ گرم ہونا ’اربن ہیٹ آئیلینڈ افیکٹ‘ کہلاتا ہے۔

لندن کے سٹی ہال کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا دارالحکومت اپنے نواحی علاقوں سے 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ گرم ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

گرمی کی لہر اور انسانی جسم

اے سی کے بغیر گھر ٹھنڈا رکھنے کے طریقے

شدید گرمی میں رات کی نیند بہتر کرنے میں مددگار دس مشورے

شہروں میں درجہ حرارت کے اس فرق کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں مختلف تعمیراتی مٹیریل کا مختلف انداز میں سورج کی روشنی کو منعکس کرنا، سبزے میں کمی، اور پانی کا زمین میں جذب ہوئے بغیر نالوں میں بہہ جانا شامل ہے۔

آئیں دیکھتے ہیں کہ یورپ کے مختلف شہر ان اثرات سے نمٹنے کے لیے اور اپنے شہریوں ٹھنڈا رہنے میں مدد دینے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔

درخت

درخت لگانے سے درجہ حرارت میں قدرے فرق آ جاتا ہے اور یورپ میں اب اسی کی طرف زیادہ توجہ دی جا رہی ہے

1: درخت اگانا

کوئی بھی شخص جو کسی گرم دن میں درخت کے نیچے بیٹھا ہو گا وہ جانتا ہو گا کہ سایہ آپ کو اور زمین کو کتنا ٹھنڈا رکھ سکتا ہے۔

مگر درخت صرف سایہ فراہم کرنے اور سورج کی شعاعیں واپس بھیجنے کا کام نہیں کرتے بلکہ وہ زمین سے پانی حاصل کرتے ہیں اور اس میں سے کافی سارا پانی ہوا میں شامل ہو جاتا ہے۔

درخت کو جس پانی کی ضرورت نہیں ہوتی وہ پتوں کے نیچے موجود باریک سوراخوں کے ذریعے باہر آتا ہے اور بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

پانی کی مائع سے بخارات میں اس تبدیلی کے لیے شمسی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر اس کام میں استعمال نہ ہو تو ہوا کو گرم کر دے گی۔ اسے تصور کریں کہ جیسے درخت کو پسینہ آ رہا ہے۔ اس سے درخت ٹھنڈا رہتا ہے اور اس سے ہوا کے درجہ حرارت میں معمولی سی کمی پیدا ہوتی ہے۔

سپین کے شہر بارسلونا میں گنجان آبادی کی وجہ سے ہیٹ آئیلینڈ افیکٹ کافی نمایاں رہتا ہے اور اب یہ شہر کو سرسبز رکھنے کے لیے درخت لگانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر غور کر رہا ہے۔

سپین کے کاتالونیہ خطے میں واقع اس شہر میں پہلے ہی کئی یورپی شہروں سے زیادہ درخت ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہاں شہری حدود کے اندر 14 لاکھ درخت موجود ہیں۔

اس شہر کا 20 سالہ ماسٹر پلان موجود ہے جس میں درختوں کا زمین پر کور بڑھا کر 30 فیصد کرنے اور یہ یقینی بنانے کا منصوبہ ہے کہ درختوں کی انواع موسمیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ ہو سکیں۔

اس کے علاوہ شہری علاقے کے اندر درخت لگانے کے مزید فائدے بھی ہیں جن میں جنگلی حیات کے رہنے کے لیے ماحول پیدا کر کے حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینا، شور کی آلودگی کو کم کرنا، اور سطح پر سے پانی بہہ جانے کے مسئلے کا حل شامل ہیں۔

سرسبز گلیاں

گلیوں اور سڑکوں کو سرسبز کرنے سے نہ صرف وہ خوبصورت نظر آتی ہیں بلکہ ان کا ماحول پر بھی بہت مثبت اثر پڑتا ہے

2: چھتوں اور سڑکوں کو سرسبز کرنا

درخت وہ واحد سبزہ نہیں جو ماحول کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔ چھوٹی جگہوں پر جہاں درختوں کے لیے جگہ نہ ہو، وہاں کچھ شہر پودے لگا رہے ہیں اور اپنے شہریوں کو بھی اس کی ترغیب دے رہے ہیں۔

پیرس میں اب کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ باغ لگانے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ ’سبزہ لگانے کی اجازت‘ کا مطلب ہے کہ شہری راستوں اور عوامی زمین کے چھوٹے قطعات پر شہر کو سرسبز بنانے کے لیے پودے اُگا سکتے ہیں۔

پیرس اور لندن دونوں ہی شہر اپنے شہری طرزِ تعمیر میں چھتوں اور دیواروں کو سرسبز کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔

ایسا تب کیا جاتا ہے جب سبزے کو دانستہ طور پر چھت، دیواروں یا ٹیرس وغیرہ پر اُگایا جاتا ہے۔ درختوں کی طرح پودے بھی سورج کی روشنی کو منعکس کرتے ہیں اور ہوا کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔

لندن کے سٹی ہال کے لیے تیار کی گئی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا کہ سنہ 2017 میں گریٹر لندن ایریا میں 15 لاکھ مربع میل کے علاقے پر سرسبز چھتیں موجود تھیں۔

ٹھنڈی جگہیں

ٹھنڈی جگہیں اس لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ شہری انھیں استعمال کر سکیں

3: گرمیوں کے لیے عارضی بیرونی جگہیں بنانا

آسٹریا کے شہر ویانا نے ’ٹھنڈی سڑکوں‘ کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے۔

اندرونِ شہر کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے ان علاقوں میں گاڑیوں کو پارک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ گھر سے باہر کے علاقے کو ڈرائنگ روم کی طرح استعمال کریں۔

گلیوں میں بیٹھنے کی جگہیں بنائی جاتی ہیں، پینے کے پانی کے فوارے لگائے جاتے ہیں اور کچھ میں تو لوگوں پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے لیے مشینیں بھی ہوتی ہیں۔ بچے یہاں کھیل سکتے ہیں اور یہاں پر پودے بھی اگائے جاتے ہیں۔

شہری حکام نے شہر کے ان علاقوں کو منتخب کیا ہے جہاں چھاؤں فراہم کرنے کے لیے درخت ہوتے ہیں۔

عمارتیں

دریاؤں، جھیلوں اور فواروں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ ایسی عمارتیں بھی بنائی جاتی ہیں جو ٹھنڈی رہیں اور سورج کی روشنی کو جذب نہ کریں

4: شہری طرزِ تعمیر کو تبدیل کر کے پانی اور منعکس کرنے والی مزید سطحیں متعارف کروانا

دریاؤں، جھیلوں اور فواروں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ کئی علاقے شہر کی سڑکوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کو نت نئے طریقوں سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جنوبی فرانس کے شہر نیس میں اربن آرکیٹیکٹ نے ایک نئے ٹرانسپورٹ مرکز کے علاقے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سڑکوں کو گیلا کرنے اور راہگیروں کے لیے فرحت بخش بنانے کے ایک نظام کا استعمال کرنا چاہا۔

پانی سوراخوں والی سطح سے رس کر اندر جاتا ہے اور پھر گرمی سے بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے جس سے آس پاس کا علاقہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔

یونان کے ایک اور شہر تھیسالونیکی میں حکام نے ایک چوراہے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی کے فوارے لگائے ہیں۔

عمارتیں عام طور پر ایسے مٹیریل سے بنائی جاتی ہیں جو سورج کی روشنی کو پانی اور پودوں کی طرح منعکس کرنے کے بجائے جذب کر لیتی ہیں۔ اس کے بعد یہ ٹھنڈا ہونے میں بھی کافی وقت لگا سکتی ہیں جس کی وجہ سے رات کو درجہ حرارت بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔

عمارتوں پر پھیکے بیرونی رنگ کرنے سے وہ سورج کی روشنی کو کم جذب کریں گی جبکہ جنوبی یورپ میں سفید دیواریں اور چھتیں ایک طویل عرصے سے عام ہیں۔

’ٹھنڈی چھتیں‘ کہلانے والی یہ چھتیں ایسے جدید مٹیریل سے بنائی جاتی ہیں جو سورج کی روشنی کو زیادہ منعکس کرتی ہیں۔ انڈیا میں کچھ جگہوں پر پایا گیا کہ ٹھنڈی چھتوں والی عمارتوں کے اندر درجہ حرارت دو ڈگری تک کم ہو سکتا ہے۔

معلومات کی فراہمی

شہریوں کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایسی ایپس بنائی جا رہی ہیں جو سبز اور چھاؤں والے علاقوں کی نشاندہی کرتی ہیں

5: معلومات اور مدد فراہم کرنا

بچوں اور بوڑھوں کے لیے ہیٹ ویو کے اثرات سے جسمانی طور پر نمٹنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔

اگست 2003 میں یورپ میں ہیٹ ویو سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے جس میں سے 15 ہزار ہلاکتیں تو صرف فرانس میں ہوئی تھیں۔

اس واقعے کے بعد فرانس نے مستقبل میں آنے والی گرمی کی لہروں سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات متعارف کروانے کا آغاز کیا۔ گذشتہ سال ریکارڈ درجہ حرارت کے بعد فرانسیسی حکومت نے کہا کہ ان حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اموات کی تعداد سنہ 2003 میں ہونے والی اموات کے دسویں حصے کے برابر رہی۔

پیرس شہر کی اپنی ایک ایپ ہے جس کے ذریعے لوگ یہ جان سکتے ہیں کہ وہ خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کہاں جا سکتے ہیں۔ نیدرلینڈز کا شہر روٹرڈیم اور یونان کا شہر ایتھنز بھی یہی ایپ استعمال کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ لندن میں بھی ایک آزمائشی منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس میں سبز اور چھاؤں والے علاقوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں لندن کے شہری گرم دنوں میں پناہ لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp