”مولوی محمد علی جناح“


میرے کمرے میں قائد اعظم کی جو تصویر آویزاں ہے اس میں قائد کا چہرہ کلین شیو ہے، انہوں نے تھری پیس سوٹ پہنا ہے اور ہاتھ میں سگار ہے، تاہم میرے ایک دوست کی خواہش ہے کہ میں قائد کی تصویر تبدیل کردوں اور اس کی جگہ شیروانی اور جناح کیپ والی پورٹریٹ آویزاں کروں، یہی نہیں بلکہ ان کے ہاتھ سے سگار بھی ”چھین“ لوں اور ان کے چہرے پر داڑھی بڑھا کر نیچے ”مولوی محمد علی جناح“ لکھ دوں۔ یہ خواہش صرف میرے دوست کی ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کی ہے جو اس ملک میں قائد کے ویژن کی بجائے اپنی مرضی کا نظام نافذ کروانا چاہتا ہے، اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان دوستوں کے اکابرین وہی ہیں جنہوں نے سرے سے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی اور قائد اعظم کو ”کافر اعظم“ کہا۔

جن صاحب کو ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں انہوں نے لنکن ان میں محمد علی جینا بھائی کے نام سے داخلہ لیا تاہم بعد ازاں درخواست دی کہ ان کا نام تبدیل کر کے ”ایم اے جناح“ یا ”محمد علی جناح“ کر دیا جائے تاہم بعد میں نام ایم اے جناح ہی قرار پایا [حوالہ: جسونت سنگھ کی کتاب ”جناح، انڈیا۔ پارٹیشن انڈیپینڈنس“ ]۔

ایک زمانے میں اسی جناح نے لندن میں شیکسپئر تھیٹر کمپنی میں اسٹیج فنکار کی ملازمت کی تو ان کے والد نے انہیں خط لکھا: ”Do Not be a traitor of the family“ (خاندان سے غداری مت کرو) [شریف الدین پیرزادہ:Some Auspects of Quaid. i. Azam, s Life P# 11 ]، اس خط کے بعد انہوں ملازمت ترک کردی۔

1918 ء میں قائداعظم کی شادی سر ڈنشا کی بیٹی رتی سے ہوئی، قائداعظم کی یہ شادی لو میرج تھی جو رتی کے والدین کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہوئی [والپرٹ: جناح آف پاکستان صفحہ 44 ]۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو ممبئی کے مخلوط تعلیمی ادارے کانونٹ میں داخل کرایا[K. H. Khurshid: Memories of Jinnah, P# 7 ]۔

قائد اعظم تھری پیس سوٹ پہنتے، ٹائی لگاتے، روز شیو کرتے، سگار پیتے، اپنا سرمایہ بنک میں رکھتے، اس پر منافع لیتے اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے [Zaidi: Jinnah Papers, Vol. II, P# xiii]۔

”مولوی“ محمد علی جناح کمال اتا ترک کو آئیڈیلائز کرتے تھے جو مکمل طور پر سیکولر اور لبرل تھا، قائداعظم نے 27 اکتوبر 1937 ء کو پٹنہ میں اپنے خطاب میں کہا ”کاش میں مصطفی کمال ہوتا“ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، بزم اقبال، لاہور، صفحہ 172 ]، کمال اتا ترک کے انتقال پر قائد اعظم نے مسلم لیگ کے حامیوں کو یوم افسوس منانے کی کال دی۔

”مولوی“ جناح نے 7 فروری 1935 ء کو سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”مذہب کو سیاست میں شامل نہیں کرنا چاہیے، مذہب کا معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہے“ [Jamil. ud. Din: Q. A. As seen by his contemporaries P# 52 ]۔

بعد ازاں ”مولوی صاحب“ نے 5 فروری 1938 ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کے دوران کہا ”(مسلم لیگ) نے آپ کو مسلمانوں کے رجعت پسند عناصر سے آزادی دلا دی ہے، اس نے آپ کو مولویوں اور مولاناؤں کے ناپسندیدہ عناصر سے بھی نجات دلا دی ہے“ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، بزم اقبال، لاہور، صفحہ 218 ]۔

بیورلے نکولس (Beverly Nichols) اپنی معروف تصنیف The verdict of Indiaمیں تحریر کرتے ہیں کہ جناح نے ان سے کہا کہ مسلمانوں کا مقدمہ پانچ جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے، مسلمان ایک قوم ہیں نمبر 1، اپنی تاریخ کے لحاظ سے، نمبر 2، اپنے ہیروز کے مطابق، نمبر 3، اپنے آرٹ اور فن تعمیر کی روشنی میں، نمبر 4، موسیقی کے لحاظ سے، نمبر 5، قوانین کے مطابق جو ہندؤں سے مختلف ہیں۔ مصنف نے سوال کیا کہ مذہب کے حوالے سے اختلاف کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ جناح نے جواب دیا۔ ”جزوی طور مگر مکمل طور پر نہیں“ [Munir: From Jinnah to Zia, P# 19 ].

ہندوستان کے مذہبی علماء کی اکثریت مسلم لیگ اور پاکستان کے خلاف تھی، جمعیت العلمائے ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی نے اکتوبر 1945 ء میں انتخابات کے موقع پر ایک فتویٰ جاری کیا کہ مسلم لیگ میں شامل ہونا حرام ہے [Khalid Saeed: Pakistan, the Formative Phase, P# 216 ]۔

مجلس احرار نے پاکستان کی سخت مخالفت کی، احرار کے لیڈر مولانا مظہر علی نے قائد اعظم کو اپنے ایک شعر میں ”کافر اعظم“ قرار دیا [Saad R. Khairi: Jinnah Reinterpreted, Oxford, P# 469 ]۔

جماعت اسلامی نے بھی قیام پاکستان کی مخالفت کی، مولانا مودودی نے تحریر کیا کہ مسلم لیگ کے قائد اعظم سے لے کر ایک عام کارکن تک اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ”مسلمان“ کا مطلب اور اہمیت کیا ہے، [مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش: ترجمان القرآن، پٹھانکوٹ، جلد سوم، صفحہ 70 ]۔

پاکستان کی پہلی کابینہ کا ایک وزیر بھی مذہبی رہنما نہ تھا، ”مولوی“ جناح نے مذہبی وزارت بھی قائم نہ کی، ان کے دونوں ملٹری سیکریٹری انگریز تھے جو ان کی وفات سے تک ان کے ساتھ کام کرتے رہے، انہوں نے بری، بحری اور فضائی افواج کے چیفس انگریز نامزد کیے، دو صوبوں کے گورنر بھی انگریز تھے جبکہ فوج اور سول سروس کے پانچ سو افسر انگریز تھے، ایک کرسچن دیوان بہادر ایس پی سنگھا 1946 ء میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے، انہیں قیام پاکستان کے بعد اسی منصب پر فائز رکھا گیا۔

قائداعظم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی بات کرتے تھے تو ان کے ذہن میں قلعہ کا تصور یہ تھا ”پاکستان کا ایک اور بلند مقصد یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بنیاد بنے گا جہاں پر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ مسلمان دانشوروں، تعلیمی، معاشی، ماہرین، سائنسدانوں، ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیکل ماہرین کو تربیت دے کر تیار کرسکیں جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کرسکیں، وہ مڈل ایسٹ اور دوسرے مسلم ملکوں میں پھیل جائیں گے تاکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرسکیں اور ان کو بیدار کرسکیں، مڈل ایسٹ کا علاقہ ایک مضبوط بلاک بن جائے گا، ایک تیسرا بلاک جو نہ کمیونسٹ ہو گا نہ سرمایہ دار نہ ہوگا بلکہ سوشلسٹ ہوگا“ ۔ [شریف المجاہد: قائداعظم کے اقتباسات]۔

قائد اعظم نے 1947 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے لیے جو 24 سیاستدان نامزد کیے ان میں ایک بھی مذہبی شخصیت شامل نہ تھی [Zaidi: Jinnah Papers, Vol. IV, P# 532 ]۔ قائداعظم کے دور حکومت میں کابینہ کے اجلاسوں کا آغاز تلاوت سے نہیں کیا جاتا تھا، کابینہ کے فیصلے کے مطابق دفتروں کے سرکاری اوقات صبح دس بجے سے ساڑھے پانچ بجے سہ پہر مقرر کیے گئے اور نماز کے لیے کوئی وقفہ نہ رکھا گیا [Minutes of the Cabinet Meeting 15 August 1947, Record Cabinet Division, Copy No. 7, P# 13 ]۔ 22

اگست 1947 ء کو حکومت پاکستان نے جمعہ کو آدھی چھٹی قراردیا۔ جنوری 1948ء میں گاندھی قتل ہوئے تو قائد اعظم گورنر جنرل پاکستان نے گاندھی کے سوگ میں سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا [The Gazette of Pakistan extraordinary Jan 31, 1948 No. 59 ]۔

”مولوی“ جناح نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی مسجد یا مزار پر حاضری دینے کی بجائے 17 اگست 1947 ء کو کراچی کے Holy Trinity Church کا دورہ کر کے غیر مسلموں کو یہ یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے برابر کے شہری تصور کیے جائیں گے۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر نہ جانے کیا بات ہے کہ میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ قائد اعظم کا پورٹریٹ تبدیل کر کے اس کی جگہ ”مولوی محمد علی جناح“ کا پورٹریٹ آویزاں کرلوں، میری اس حرکت سے قائد کی روح یقیناً خوش ہوگی۔

نوٹ: 23 مارچ کے موقع پر لکھے گئے اس کالم میں حقائق قیوم نظامی کی کتاب ”قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل“ سے لیے گئے ہیں
30 مارچ 2014۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada