شریر سیاسی خاکے: میاں محمد نواز شریف


پچیس دسمبر کو میاں محمد نواز شریف لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کی سالگرہ پر دنیا بھر میں چراغاں ہوتا ہے اور پاکستان کے علاوہ پورے یورپ اور امریکہ میں اس دن سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے ہے جو اننت ناگ سے ترک وطن کر کے امرتسر میں آباد ہوا تھا۔ میاں صاحب کی آنکھوں میں جو مقابل کو مسحور کر دینے کی صلاحیت ہے، شاید اس کی وجہ اننت ناگ سے تعلق ہی ہو۔

آپ نے سنا ہو گا کہ جب قدرت نے کسی آدمی سے بڑا کام لینا ہو تو وہ فطرت کو لالے کی حنابندی پر مجبور کر دیتی ہے۔ اسی وجہ سے گورنمنٹ کالج سے بزنس پڑھنے کے باوجود وہ پنجاب یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوئے۔ بقیہ زندگی میں بھی قانون اور عدالت وغیرہ چھائے رہے خاص طور پر میاں صاحب کا ایک مرتبہ سپریم کورٹ میں جانا تو قیامت کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔

میاں صاحب مقرب بارگاہ خداوندی ہیں۔ خدا کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں۔ ان کی دعا میں بہت اثر ہے۔ ایک مثال تو سب کے علم میں ہی ہے کہ جب اچانک ایک دن ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتیں قومیا لیں اور کل کے کروڑ پتی سڑکوں پر آ گئے، تو میاں شریف صاحب نے ہمت نہ ہاری اور اپنے چھوٹے بیٹے شہباز شریف کے ساتھ دوبارہ سے تنکوں کو جوڑ کر کاروبار بنانے لگے، لیکن میاں صاحب نے مصلا سنبھال لیا اور ان کی آہ بھٹو کو ایسے جا کر لگی کہ وہ سب کچھ کھو بیٹھا اور اور جنرل ضیا آ گیا۔

بعد میں قوم نے بارہا دیکھا کہ میاں صاحب کی دعا میں کتنا اثر ہے۔ ایک مرتبہ جنرل ضیا الحق نے خوش ہو کر میاں صاحب کو دعا دی کہ میاں ہماری عمر بھی تمہیں لگ جائے۔ میاں صاحب نے آمین کہا اور جواب میں جنرل صاحب کا اقبال آسمان سے بھی زیادہ بلند ہونے کی دعا کی۔ جنرل صاحب فضا میں بلند ہوئے اور واپس زمین پر نہ پلٹے۔ جنرل ضیا کے نصیب میں یہ بے پایاں بلندی لکھ دی گئی تھی اور میاں صاحب کے نصیب میں حکومت۔

میاں صاحب کے سیاست میں آنے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق میاں صاحب کو جوانی میں موسیقی، کرکٹ اور عبادت کے علاوہ کھانے پینے اور صحت بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ ان دنوں کاروبار تو کوئی خاص تھا نہیں کہ بھٹو نے سب کچھ چھین لیا تھا، اس لئے وہ صحت بنانے کے لئے صبح کے تڑکے باغ کے چکر لگایا کرتے تھے۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ میاں صاحب سیر کرنے جس باغ میں جایا کرتے تھے، اسی چمن میں جنرل ضیا کے معتمد خاص اور گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی بھی آیا کرتے تھے۔

جنرل جیلانی نے کئی ماہ تک یہ دیکھا کہ میاں صاحب تو قدم تک گن گن کر اٹھاتے ہیں اور پیسہ خرچ کرنے میں اس حد تک محتاط ہیں کہ خوانچے والے سے چھلی یا خستہ دال خریدتے وقت بھی خوب بھاؤ تاؤ کیا کرتے ہیں۔ جنرل جیلانی نے پتہ کرایا کہ یہ روشن صورت اور کفایت شعار نوجوان کون ہے تو ایک بزرگ صحافی نے انہیں بتایا کہ یہ تو کروڑوں میں کھیلنے والے خاندان کا ولی عہد ہے جو بھٹو کے ہاتھوں اس حال کو پہنچا ہے کہ اب ناشتے میں سری پائے کی بجائے بھنے ہوئے مکئی کے بھٹے کھاتا ہے۔ جنرل جیلانی نے میاں شریف صاحب سے بات کی کہ ایسے حساب کتاب کرنے والے شخص کو پنجاب کا وزیر خزانہ مقرر کرنے کی اجازت دے دیں۔

میاں شریف صاحب بھی پریشان تھے کہ میاں صاحب کی مصروفیت کا کیا بندوبست کیا جائے۔ کاروبار تو وہ خود اور ان کے چھوٹے بیٹے چلا رہے تھے۔ ان کو غالباً یہی فکر ستاتی تھی کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے، تو بیکار پڑے رہنا کہیں میاں صاحب کو فن موسیقی کی سرپرستی کی طرف راغب نہ کر دے۔ انہوں نے یہی سوچا ہو گا کہ چلو خاندان کا ایک سپوت اگر سیاست میں پڑ گیا تو آئندہ کوئی بھٹو ان کے کاروبار کو دوبارہ نہ چھین پائے گا۔

یوں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ مقرر کر دیے گئے۔ ان کی جنرل ضیا سے ملاقات ہوئی تو وہ میاں صاحب کے گرویدہ ہو گئے۔ جنرل ضیا نے میاں صاحب کو پنجاب کا وزیراعلی لگا دیا۔ میاں صاحب اب مصلے سے فارغ ہوئے تو ان کی موسیقی میں دلچسپی دوبارہ بیدار ہوئی۔ خاص طور پر راگ پہاڑی پر وہ فدا تھے۔ لیکن یہ خوب جانتے تھے کہ جیسے ملہار برسات کا گیت ہے، تو راگ پہاڑی کے لئے پہاڑی قریب ہونا ضروری ہے۔ سوانح نگار بتاتے ہیں کہ ان دنوں وہ اکثر لارنس گارڈن کی پہاڑی پر موسیقی کے حسن سے لطف اندوز ہوتے پائے جاتے تھے۔

وزارت پا کر ان کی کرکٹ میں دلچسپی بھی دوبارہ عود کر آئی۔ ایک غریب مزدور کا بیٹا ہونے کے باوجود انہیں لاہور جم خانہ کی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے کا بارہا موقع ملا۔ ان کے رعب داب کا یہ عالم تھا کہ ان کی اپنی ٹیم کے علاوہ مخالف ٹیم کے کھلاڑی بھی ان کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ کھلاڑیوں پر کیا منحصر، روایت تو یہ بھی ہے کہ ایمپائر تک ان کے اشارہ ابرو کا حکم بجا لانا اپنی خوش بختی کا باعث گردانا کرتے تھے۔

میاں صاحب ایک اچھے بیٹسمین تھے کیونکہ ان کو ففٹی سے پہلے آؤٹ کرنا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اپنے وقت کے عظیم باؤلروں کا انہوں نے سامنا کیا اور انہیں بار بار چھکے مارے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان صاحب اس ہزیمت کو کبھی نہ بھولے اور کھیل کے میدان میں پلنے والی یہ مخاصمت بعد میں سیاست کے میدان میں میاں صاحب کے خلاف مہم چلانے کی ایک بڑی وجہ بنی اور اسی زمانے میں عمران خان صاحب کا اعتقاد ایمپائر کی انگلی پر قائم ہوا۔

سیاست اور حکمرانی اپنی جگہ لیکن میاں صاحب کی اصل دلچسپی تو یاد خدا میں ہی تھی۔ ان کی مذہب میں دلچسپی دیکھ کر جنرل مشرف نے ان کو قائل کر لیا کہ وہ دس برس کے لئے ارض مقدس چلے جائیں اور وہاں عبادت میں وقت گزاریں۔ میاں صاحب مان گئے اور آٹھ برس بعد پلٹے۔ ان کی طبیعت اب دنیا کی طرف راغب نہیں ہوتی تھی اس لئے انہوں نے آصف علی زرداری کو حکومت سونپ دی اور خود گوشہ گمنامی میں رہنا پسند کیا۔

لیکن ملک اتنے نازک دور سے گزر رہا تھا کہ ان کو واپس حکومت سنبھالنی پڑ گئی۔ مگر خدا کے سارے برگزیدہ بندے کسی نہ کسی آزمائش سے ضرور گزرتے ہیں۔ میاں صاحب کی اس آزمائش کا نام اس مرتبہ عمران خان ہے جو کہ میاں صاحب کی جم خانے کے دور کی بیٹنگ کو دل کا روگ بنائے بیٹھا ہے۔ مگر میاں صاحب کی آہ اسے ایسی لگی ہے کہ اس کی یادداشت ختم ہو گئی ہے۔ ایک دن ایک بات کہتا ہے اور اگلے دن بھول کر اس سے مختلف بات کہتا ہے۔ بارہا یہی دیکھا کہ وہ میاں صاحب کے لئے جو گڑھا کھودتا ہے خود ہی اس میں گر جاتا ہے۔

میاں صاحب کے اس عروج کا باعث ان کے نصیب کے علاوہ ان کی خاندانی لیاقت بھی ہے۔ ان کے خاندان کے اہل افراد اس وقت لاہور اور گرد و نواح کی تقریباً تمام سیٹیں جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی پنجاب کے وزیراعلی ہیں۔ ان کے لڑکوں نے سیاست میں دلچسپی نہیں لی اور ان کی توجہ کاروبار کی طر ف ہی رہی ہے۔ ساری خدائی ان کے ہنر پر حیران ہے کہ اتنے کم وقت میں وہ اتنا پیسہ کیسے کما چکے ہیں۔ ہاں مریم بی بی کا رجحان سیاست کی طرف ہے۔ ان کی ذہانت اور سیادت کا یہ عالم بیان کیا جاتا ہے کہ اگر میاں صاحب ملک سے باہر ہوں تو تمام انتظامیہ انہیں سے ہدایت لینا اپنے حق میں بہتر جانتی ہے۔

میاں صاحب طبیعت کے بھولے بھالے ہیں۔ ان کی اس طبعی سادگی کا ان کے اتحادی بہت فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ مگر مثل مشہور ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ میاں صاحب کے جس اتحادی نے بھِی ان سے ہاتھ کرنے کی کوشش کی، وہ خود ہی تباہ ہوا۔ ان سے جس نے بھِی دشمنی کرنے کی کوشش کی، وہ پریشان ہوا۔ مشہور ہے کہ صدقہ ہزار بلاؤں کو ٹالتا ہے اور میاں صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ کھلے ہاتھ والے کا مقدر کبھی تنگ نہیں ہوتا۔ ان کی کامیابی کا فارمولا سادہ سا ہے، مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔
یہ تحریر پہلی مرتبہ ہم سب پر 23/11/2016 کو شائع ہوئی تھی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments