بدھ، بزدار اور میانداد


مریم نواز صاحبہ کا پسندیدہ مشغلہ خاموش رہنا ہے لیکن جب وہ بولتی ہیں تو خوب بولتی ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر بولتی ہیں۔ ان کے بول میں مثالیں بھی ہوتی ہیں اور دلائل بھی۔ لیکن ابھی منگل کو نیب پیشی کے بعد جس طرح وہ بولیں اس میں ہمیں روایتی مریم نواز نظر نہیں آئیں۔ بات سے بات جوڑنے میں ان کو ملکہ حاصل ہے لیکن اس دن لگتا تھا کہ ان کا یہ ملکہ کہیں کھو گیا ہے۔ نامکمل جملے، ادھوری باتیں، بے وزن دلیلیں اور بغیر مثالوں کی پریس کانفرنس میں اور کچھ نہ تھا بس ایک ہجوم تھا۔ آدھے سننے والے تھے اور آدھے سنانے والے تھے لیکن مریم کے چچا حضور لاکھ ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہیں ملے شاید بیانیے کے انڈے سیکھے جا رہے ہوں۔

پریس کانفرنس میں مریم نواز اپنی ہم نام مریم اورنگزیب کے کان میں کھسر پھسر بھی کرتی رہیں لیکن مشرقی روایات کا حوالہ دینے والی مریم صاحبہ اس روز شاید یہ بھول گئی تھیں کہ ہمارے ہاں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ قصہ مختصر منگل کو ہمیں وہ مریم نواز نظر نہیں آئیں جس نے پاناما جے آئی ٹی کی پہلی پیشی کے بعد منطق اور دلیل کے دریا بہائے تھے۔

مریم نواز کو نیب والوں سے گلہ تھا کہ مجھے کیوں بلوایا۔ بلایا ہے تو اب بھگتو بھی۔ 11 اگست کو جو ہوا وہ واقعی بھگتے والا تھا۔ ٹھوکر نیاز بیگ کے نیب لاہور آفس کے سامنے ن لیگ والوں نے جو کیا اس نے 1997 میں سپریم کورٹ پر حملہ کی یاد تازہ کردی۔ پتھر برسے، ڈنڈے پڑے، شیشے ٹوٹے اور آنسو گیس کے شیل چلے۔ کچھ کارکن زخمی ہوئے اور کچھ پولیس والے اظہار یکجہتی میں زخمی ہوئے اور باقی جو چند درجن بچے تھے انہیں پولیس والوں نے خیر سگالی کی بس میں ٹھونس دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

اس مارا ماری میں مریم نواز کی بم پروف گاڑی جو ان کے بقول ان کی نہیں بلکہ میاں صاحب کی ہے، کی ونڈ اسکرین کو نقصان پہنچا۔ محترمہ نے اس نقصان کا ذکر اسی روز پریس کانفرنس میں بھی کیا کہ بھاری پتھر لگنے سے ونڈ سکرین ٹوٹ گئی ہے لیکن اگلے روز انہوں نے اس نقصان زدہ گاڑی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پتھر سے کچھ بڑھ کر تھا۔ خوب صورت مونچھوں والے رانا صاحب نے تو اس سے بھی آگے کی بات کردی کہ بھلا کبھی پتھر سے بھی بم پروف گاڑی کی ونڈ اسکرین ٹوٹی ہے یہ تو لیزر گن سے فائر کیا گیا ہے۔

اس جیسے الزامات کا کیا ہے وہ تو ہمارے نوجوان فیاض الحسن چوہان بھی لگانے میں کسی سے کم نہیں کہ ن لیگ کی قیادت نے اس کارکن کو سکہ رائج الوقت مبلغ ایک لاکھ روپے جس کے نصف پچاس ہزار روپے بنتے ہیں دیے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

ایک طرف یہ پتھر مار پیشی تھی اور دوسرے طرف مرنجاں مرنج وزیراعلیٰ بزدار صاحب تھے جو بغیر پروٹوکول کے وزیراعلیٰ ہاؤس سے سیدھے نیب آفس پہنچے۔ نہ کارکنوں کی برات ساتھ لائے نہ پتھر بھرے شاپروں والی گاڑیاں ہمراہ تھیں۔ نہ کوئی گلو بٹ تھا نہ کوئی نہال ہاشمی سا دبنگ لیڈر۔ عہد کورونا میں جس سادگی سے نکاح ہوتے رہے اسی طرح بزدار صاحب کو اپنی یہ عاجزانہ حاضری اتنی پسند آئی کہ پیشی کے بعد جھٹ سے ایک ٹویٹ داغ دی کہ قوم نے کل قانون شکنی دیکھی تھی آج کی قانون پسندی بھی دیکھ لیں۔ واہ بزدار صاحب واہ۔ ایسے تو آپ کو وسیم اکرم پلس نہیں کہتے۔ یہ الگ بات ہے کہ دشمن آپ کو اصل شراب کا اصل لائسنس جاری کرنے کے الزام میں ناحق پھنسانے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ لیکن آپ ڈٹے رہیں ہلنے کی کوشش کی تو سر پر بیٹھا اقتدار کا ہما کسی بھی وقت پھر کر کے اڑ سکتا ہے۔

منگل اور بدھ کے اوپر تلے ان دو تماشوں کے بیچ جاوید میانداد صاحب نے بھی انٹری ماری حالانکہ وہ میدان میں چھکے مارنے والے کھلاڑی ہیں لیکن اس روز سیاست کے پچ پر چھکا جڑ دیا اور وہ بھی 1992 ورلڈ کپ کے اپنے ہی کپتان کو میانداد کے بقول خان صاحب کے سینے میں غریبوں کا درد ہی نہیں انہیں پتہ ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ خان صاحب تو سیاست سے بھی نابلد تھے کرکٹ کی طرح سیاست بھی انہیں میں نے ہی سکھائی اور وزیراعظم بھی میں نے ہی بنایا۔ ویسے یہ باتیں تو اپوزیشن والوں کے دماغ میں ڈالنی چاہیے جو ہر وقت سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی گردان کرتے ہیں حالانکہ اصل سلیکٹر تو میانداد صاحب ہیں۔ پل بھر کے لئے ہی سہی اگر یہ سوچا جائے کہ میانداد جانی نے جو باتیں کہی ہیں اور جس عمر میں کہیں ہیں اس میں بندہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور محسوس بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ مکمل ہوش میں تھے اور ان کے حواس خمسہ مکمل کام کر رہے تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کمانڈو پی کیپ پہنے بغیر اگر یہ باتیں کرتے تو ہم مانتے۔

لیکن ہمیں کیا ہمیں تو زرتاج گل کے قاتل آنکھوں والے کپتان اور ان کے وسیم اکرم پلس سے مطلب ہے کہ مرکز ہو یا پنجاب وہ جو بھی کرتے ہیں مکمل میرٹ پر کرتے ہیں۔ مجال ہے کہ اپنوں کے سوا کسی کو نوازتے ہوں۔ اسی کا نام دوستی ہے اور دوست مانگتے نہیں بلکہ بن دیکھے لٹاتے ہیں، میانداد صاحب کو میدان کو پتہ ہے سیاست کی دوستی کا انہیں کیا ادراک، ویسے بھی بندر کیا جانے ادرک کا مزہ۔ مزے سے یاد آیا مزہ تو ن لیگ والوں کو خوب آیا ہو گا کہ کیسے عوام کو الو بنایا ان کی شیرنی لیڈرنی نیب کے سوالات سے بھی بچ گئی اور چپ کا روزہ بھی توڑ ڈالا لیکن سو سنار کی ایک لوہار کی کے مصداق منگل کو مریم کی اور بدھ کو بزدار کی پیشی رکھنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ بدھ کو ہونے والے ہر کام میں سکھ ہوتا ہے اب اسے سازش کہہ لیں یا اتفاق۔ لیکن ہوتا یہی ہے۔ بدھ کم سکھ۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal