چودہ اگست



اپنے زمانہ طالب علمی سے آج کے روز تک میں نے 14 اگست کی تقاریب میں ایک خاص قسم کے ”آئٹم“ ہی دیکھے۔ وہی ٹیبلوز، وہی ملی ترانے، وہی پاکستان کے جھنڈے والے کیک، ہرے اور سفید لباس، چھوٹے بڑے جھنڈے، بیج وغیرہ۔ 14 اگست کی تقاریر کے وہی رٹے ہوئے جملے۔ 2006 ء میں 14 اگست میں نے کوئٹہ میں گزارا تھا۔ ہم لوگوں کا قیام مسجد روڈ پر ایک ہوٹل میں تھا۔ وہیں پر ایک قدیمی عمارت جس پر ’آریہ سماج‘ تحریر ہے، 1947 ء کے بعد سے بطور اسکول استعمال ہو تی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 14 اگست کو صبح وہاں جشن آزادی کی تقریب ہو رہی تھی اور تقریر کی آواز آ رہی تھی۔ کوئی استانی طلبہ کو بتا رہی تھیں کہ ”قائد اعظم کی کاوش سے ہم الحمد للہ اب آزاد ہیں، جب ہم انگریزوں کے غلام تھے تو ہم کو نماز پڑھنے کی بھی آزادی نہ تھی۔ ۔ ۔“

کمپنی کے دور اقتدار یعنی 1757 ء سے 1857 تک اور تاج برطانیہ کے 1947 ء تک کے ایک سو نوے سال کے دورانیے میں ایسی پابندی کبھی انگریز نے نہ لگائی، مگر چلیے کوئٹہ کی معصوم استانی کو معاف کر دیتے ہیں، خود کو آزاد محسوس کرنے کے لئے شاید اسی قسم کا ماضی اپنے ذہن میں خلق کرنا ہماری مجبوری بھی ہے اور فطرت بھی ہے۔

پھر اس بات پر بھی غور کیجئے کہ انگریزی میں ہم 14 اگست کے لئے لفظ Independence Day استعمال کرتے ہیں جب کہ اس کا ترجمہ اردو میں یوم آزادی کر دیتے ہیں، یہ یا تو مترجموں کی متواتر نا اہلی ہے یا صریح بدعنوانی ہے۔ Independence کا مطلب ’عدم انحصار‘ بھی تو ہوتا ہے۔ یہ آزادی سے برتر بات ہے اور پاکستان کی سات دہائیوں کی تاریخ میں یوم عدم انحصار تو کبھی آیا ہی نہیں۔

مگر اہم بات یہ ہے جو ہر یوم آزادی پر دل میں آتی ہے کہ آخر پاکستانی ہونے کا مطلب ہے کیا؟ یعنی پاکستانی شہری ہے کون؟ ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان میں سیکڑوں قسم کی قومیں بستی ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 102 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پھر الگ الگ رنگ، شکل صورت کے لوگ ہیں، تو پھر پاکستانی کون ہیں؟ اس کا آسان جواب یہ ہو سکتا ہے کہ جو بھی پاکستان میں رہتا ہے وہ پاکستانی ہے۔ چلیے مان لیجیے۔ پھر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ ہماری قومی اور اجتماعی امنگیں کیا ہیں؟

آرزوئیں کیا ہیں؟ پھر سب سے بنیادی سوال جو کہ ان 14 اگست کی تقریبات سے، نغموں، ترانوں سے غائب ہے، وہ یہ کہ پاکستان اور اسلام کا تعلق کیا ہے؟ جب اگست 1947 ء میں پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ بلند ہوا تھا تو کیا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا گیا تھا؟ اگر یہ نعرہ لگانے والے سنجیدہ اور سچے تھے تو سوال یہ ہے کہ سات دہائیوں کے مظاہر اور قوانین میں اسلام ایک ا جنبی کی حیثیت کیوں رکھتا ہے؟

جب پاکستان اور پاکستانیت کی بات ہوتی ہے تو چار صوبوں کی ثقافتوں کے ٹیبلو شروع ہو جاتے ہیں۔ ثقافت کی، گیتوں کی، ٹوپیوں، شالوں، پکوانوں کی بات شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں تو ہزار سال پہلے بھی تھیں تو پھر پاکستان کی شناخت صرف یہ ہی چیزیں کیسے ہیں؟ اور اگر صرف یہ ہی مظاہر پاکستان کی شناخت ہیں تو پھر کیوں برصغیر کی تقسیم کی ضرورت پیش آئی؟ اور تب جو ملک بنا تھا اس میں تو مشرقی بنگال بھی شامل تھا، وہ کیا ہوا؟

پاکستان کو پاکستان بنانے اور جوڑنے والی قوت یہ ٹوپیاں، کھانے، گیت، پکوان نہیں ہیں، صرف ’اسلام‘ ہے۔ اگر پاکستان کو ایک سیکولر، لبرل ملک ہی بننا تھا تو یہ سب کچھ تو آئینی طور پر ہندوستان بھی ہے۔ پاکستان ان ثقافتوں، ٹوپیوں اور شالوں کے لئے نہیں بنا تھا۔ یہ ایک نظریاتی ریاست تھی جسے حقیقی طور پر خود انحصاری کا حامل ہونا تھا۔ اس ملک کو اسلامی اخوت اور مساوات کا نمونہ بننا تھا۔ اس ملک کو عالم اسلام کی ایک قوی آواز بننا تھا۔

ایک ایسی آواز جو عالم میں اور خاص طور پر برصغیر میں حقیقی معنوں میں اہل اسلام کا قلعہ بھی ہو اور جس کے ہونے سے مسلمانوں کے مفادات کی خطے میں حفاظت ہوتی ہو۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان ان میں سے کچھ بھی نہ بن سکا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر یہ وطن حاصل کیا۔ لاکھوں نے اپنے علاقے، اپنے گھر بار، کھیت کھلیان چھوڑے اور یہاں ہجرت کی۔ نہ ان لوگوں کو حقیقی آزادی مل سکی نہ اسلامی ریاست۔ وہی انگریزی قانون، وہی سماجی ادارے، وہی معاشی نظام، وہی نوکر شاہی، وہی انگریزوں کے غلاموں کی اولادیں یعنی سیاستدان اور وہی فوج۔

پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم خود مختار ہیں، آزاد ہیں، اسلامی ہیں، اس پر تقریر لکھ کر لائیں تو بیچاری کوئٹہ کی معصوم استانی کو کہنا پڑتا ہے کہ انگریزی دور میں تو ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت نہ تھی، بیچاری اسلامی تو ہے مگر اسلام کو محض نماز تک سمجھی ہے۔ اب تو اس بیچاری استانی کا بولا ہوا معصوم جھوٹ بھی 14 اگست کی تقریبات سے عنقا ہو گیا۔ اب تو شاید یہ کہا جائے کہ انگریزوں کے دور میں بڑا ظلم تھا، انہوں نے مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ کھانے اور بھنگڑا ڈالنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔

اسی لئے ہم نے لاکھوں جانوں کو قربان کر کے یہ وطن حاصل کیا تا کہ ہم ’آئی ایم ایف‘ اور ورلڈ بینک سے قرضے لے سکیں اور ہماری سول اور فوجی بیوروکریسی اور سیاستدان اسے خرد برد کر کے یورپ اور امریکا میں جائیدادیں بنا سکیں۔ پاکستان کتنا عظیم خواب تھا اور ہمارے حکمرانوں نے اسے کیا بنا دیا۔ کس طرح اس ملک کی اساس کو تاراج کر دیا گیا۔ کاش اس نقصان کا ایک فیصد شعور بھی ہم کو ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).