میاں بیوی اور دوست ہونے میں کیا فرق ہے؟


موجودہ زمانے میں جہاں اب نکاح کے کانٹریکٹ پر جن دلہا، دلہن کے دستخط ہوتے ہیں وہ محض ایک دوسرے کے بستر کے ساتھی نہیں ہوتے، وہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، پارٹنر ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ عمر بھر دکھ سکھ نبھانے کا معاہدہ کرتے ہیں۔ اس معاہدے میں کہیں کسی ایک کی موجودگی میں کسی دوسرے کے ساتھ بستر شیئر کرنے کی شق نہیں ہوتی۔

روایتی میاں بیوی کے ہاں دوسری شادی کی ضرورت یا اجازت کے مسائل سر اٹھاتے ہیں۔ دوستوں میں نہیں۔ موجودہ دور میں عورت ہی نہیں مرد بھی بہت سی بندشوں کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔

کیوں کہ یہ جدید زمانے کا وہ مرد ہے، جس نے شادی سے پہلے اپنی بیوی سے ملاقاتوں کی شرط رکھی تھی۔ یہ جدید زمانے کا مرد، جو فلمیں دیکھتا ہے، نامحرم عورتوں کے ساتھ قہقہے لگاتا ہے، سالی یا بیوی کی سہیلی کو بائک پر بٹھا کر گھرچھوڑ کر آتا ہے، یہ وہ جدید زمانے کا مرد ہے جو بیٹی اور بیٹے دونو ں کو یکساں تعلیمی ادارے میں پڑھاتا ہے۔ بیٹی کے جینز پہننے اور دوپٹہ نہ اوڑھنے پر برا نہیں مناتا۔ یہ وہ جدید مرد ہے جو شارٹ میں باہر دودھ، دہی لینے چلا جاتا ہے۔

یہ وہ جدید مرد ہے جو سگریٹ کا عادی ہونے کی وجہ سے روزے نہیں رکھ پاتا۔ یہ وہ جدید مرد ہے جس نے اپنی بہنوں کو پسند سے شادی کرنے پر ماں باپ کو را ضی کیا۔ یہ وہ جدید زمانے کا مرد ہے ماں اور بیوی کے خود پر کچھ پڑھ کر پھونکنے پر ہنستا ہے۔ یہ جدید خیالات کا حامل مرد ہے اسے اپنی بیوی کے مردوں کے ساتھ نوکری پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔

لیکن اسی جدید مرد کو جب کوئی لڑکی پسند آ گئی، تو یوں بھی ہوتا ہے کہ موصوف کھلے دل سے اپنی آزاد خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موصوفہ کو اپنے بیوی بچوں سے بھی ملوا دیتے ہیں۔ وہ محترمہ اخلاق کی پوٹلی میں سے بچوں کو ایسے ایسے شیریں خطاب دیتی ہیں کہ بچے بھی ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ موصوفہ ہونے والی سوکن کو منہ میں شہد رکھ کر آپا کہنے لگتی ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی تحفہ لیے چلی آ رہی ہیں۔ مگر جتنا وہ پیار انڈیل رہی ہے اتنا ہی شک کا سانپ پھنکارنے لگتا ہے۔ وہ بچوں سے موصوفہ کو پھپو کہلوانے لگتی ہے۔

موصوف لبرل ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن موصوفہ اب نو سو چوہے کھا کر کھونٹے سے بندھنا چاہتی ہیں

تب موصوف بیگم سے دل کی بات زبان پر لے آتے ہیں۔ بے چاری بے آسرا ہے۔ دیکھو کتنی خدمت کرتی ہے شادی کے بعد تو زر خرید غلام بن جائے گی۔

موجودہ زمانے کی عورت، جدید خیالات کے مرد سے احتجاج کرتی ہے تو وہ اپنی بیوی کو اسلام سکھانے چل پڑتا ہے، اسے بتاتا ہے کہ اسلام میں کیسی آسانیاں ہیں۔ ایک اچھی بیوی جنت کیسے کما سکتی ہے۔ اور کیوں کہ اسلام میں اس کی اجازت ہے، اور یہ سنت بھی ہے تو وہ یہ عمل ضرور کرے گا۔ لیکن جدید عورت اسے کینچلی بدلتے دیکھ رہی ہے۔ وہ اس کی ہر بات رد کرتی ہے اب وہ اسے اس بے آسرا عورت کو عزت دینے کے لیے گڑگڑاتا ہے۔ یہ کیسی عزت ہے جو بیوی بچوں کے سامنے وہ اسے ایک علیحدہ کمرے میں دے گا۔

آج کی عورت بیوی نہیں، دوست ہے۔ دوست ایک دوسرے کی مرضی اور ایک دوسرے کو قائل کیے بغیر کوئی مشترکہ دوست بھی گھر میں نہیں لاسکتے نہ کہ دوست نکاح کے نام پر کسی غیر سے بستر شیئر کروائے۔ اور اس شئیرنگ کی کلفت صرف بیوی ہی کے حصے میں آئے۔ موجودہ دور میں عورت نکاح نامے کے مندرجات سے واقف ہوتی ہے۔ ان کے ملاپ سے ہونے والے بچے دونوں کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں۔

کوئی وجہ ہو جائے تو اسٹییفن ہاکنس کی طرح کیا کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہے گا، تم جوان ہو، تمہاری بھی کچھ ضرورتیں ہیں جو میں پوری نہیں کر سکتا۔ جاؤ میں نے تمہیں آزاد کیا۔

ہم دیکھتے ہیں کئی ایسی مثالیں جب بیوی اپنے معذور شوہر کو گھر پر چھوڑ کر روزی کمانے جاتی ہے تو گھر واپس آ نے پر روزانہ شوہر سے ایک طعنہ ملتا ہے۔ کہاں سے منہ کالا کروا کر آئی ہے۔

کیا یہ طعنہ دیر سے آنے والے شوہر کو کوئی معذور بیوی دے سکتی ہے؟ نہ صرف وہ طعنہ نہیں دے سکتی بلکہ وہ اپنے شوہر کی احسان مند رہتی ہے جس نے اسے اپنی چھت کے نیچے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ اس چھت کے نیچے وہ اس کا پیار یا بستر کسی کے ساتھ شیئر کر بھی لے تو وہ اسے خوشی سے برداشت کر لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).