شام میں رات: جنرل، باپ اور بیٹی


’میں تمہیں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں۔ تم تہہ خانے میں رات گئے اندھیرے میں گڑگڑا کر کیا دعا مانگ رہے ہو؟ تم تو نماز ہی شاذ و نادر پڑھتے ہو۔‘ خالدہ سے رہا نہ گیا۔

مبارک نے اپنی بھیگی آنکھیں اٹھائیں اور خالدہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔ ’مجھے محسوس ہو گیا تھا کہ تم مجھے ڈھونڈتی ہوئی نیچے آ گئی ہو۔‘

’بتاؤ مجھے کہ خدا کے حضور کیا مانگ رہے تھے۔‘ اب خالدہ کی آواز میں زور تھا۔
مبارک خاموش رہا اور نگاہیں نیچی کر لیں۔

’بتاتے کیوں نہیں؟ میں نے ایک دو بار جمیلہ کا نام تمہارے منہ سے ضرور سنا لیکن اور کچھ نہ سمجھ پائی۔ جمیلہ کا نام سن کر اس ہلکی روشنی میں بھی تمہارے چہرے پر کتنی بے چینی نظر آ رہی ہے۔‘

مبارک گمبھیر آواز میں بولا۔ ’اس مسئلہ کو تو حل کرنا ہے۔‘

’وہ گھر آ گئی تو تمہارے لئے ایک مسئلہ پیدا ہو گیا۔ میں نے تو اس کے آنے پر شکرانے کے نفل پڑھے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ تم کیا سوچ رہے ہو اور تمہاری اس سوچ کی وجہ سے کانپ کانپ جاتی ہوں۔ پچھلے تین دنوں سے ایک اور سخت آزمائش سے گزر رہی ہوں۔ جب سے جمیلہ گھر آئی ہے تمہیں چپ کا دورہ پڑا ہوا ہے۔‘

’جب تمہیں معلوم ہے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں تو پھر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟‘

’اس لئے کہ میں یہ ہونے نہیں دوں گی۔ ہائے میری جمیلہ، میری جمیلہ جسے میں نے چنبیلی کے پھول کی طرح پالا، پانچوں بچوں میں سب سے زیادہ لاڈ کیا۔ اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو گا۔ مبارک، مبارک ایسا نہیں کرنا، نہیں نہیں!‘ اب خالدہ کی آواز کپکپا رہی تھی۔

’وہ صرف تمہاری ہی لاڈلی نہیں تھی، میری بھی تو اتنی ہی لاڈلی تھی۔ اسی لئے جب اس نے اصرار کیا کہ وہ بشرالاسد کی حکومت کے خلاف جلسے جلوسوں میں شامل ہونا چاہتی ہے تو میں اسے منع نہیں کر سکا۔ یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ کاش میں اس کو سختی سے روک دیتا اور گھر سے باہر نہ نکلنے دیتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔‘

’اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں جمیلہ کا تو کوئی قصور نہیں۔‘
’تو کیا سارا قصور میرا ہے؟‘ مبارک نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’مبارک، میں نے کب کہا کہ قصور تمہارا ہے۔ اب جو ہونا تھا ہو چکا۔ جمیلہ کے ساتھ کیا پہلے کم ہوا جو تم ایسی بات سوچ رہے ہو۔‘

’جمیلہ تو کیا ہمیں بھی اب کوئی قبول نہیں کرے گا، محلے دار، دوست احباب، رشتے دار، یہاں تک کہ کاروباری لین دین والے مجھے قبول نہیں کریں گے۔ میں کسی کے سامنے نظر یں اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ میں تم اور یہ چار بچے کس طرح باقی زندگی گزاریں گے؟ ہم اور لٹ جائیں گے۔‘

’مبارک، مبارک، ہم کہیں اور چلے جاتیں ہیں جہاں ہمیں کوئی نہ جانتا ہو۔‘

’یہ بدنامی ایک آسیب کی مانند ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ مبارک کا لہجہ آہستہ آہستہ سخت ہو رہا تھا۔‘ لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ جمیلہ کے ساتھ کیا ہوا جیسے یہ سب کچھ اس کی اپنی کوئی وجہ سے ہوا۔ وہ ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھتے ہیں کہ جمیلہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ ’

’لیکن تمہیں تو معلوم ہے کہ جیل میں جنرل ناصر اور اس کے ساتھیوں نے ہماری بیٹی کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا۔ تم اس کی داستان سنو گے تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، راتوں کی نیند غائب ہو جائے گی، کھانا پینا بھول جاؤ گے۔ جاؤ اپنی بیٹی کو گلے سے لگاؤ، اس کے زخم بھرو تا کہ وہ دوبارہ زندہ ہو جائے، اسکول جانا شروع کر دے، اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے۔ پھر تم بے شک ساری عمر اس سے نہیں ملنا۔‘

’خالدہ! مبارک غصے میں کھڑا ہو گیا۔‘ مجھے باتوں میں نہیں الجھاؤ۔ میری سوچ کو اپنے کمزور خیالوں سے گندا نہیں کرو۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کون کس کا ذمہ دار ہے۔ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ جمیلہ اب میری بیٹی نہیں رہی، جمیلہ ایک دھبہ ہے ہم سب پر اور اس دھبے کو مٹانا ضروری ہے۔ میں اور کچھ نہیں جاننا چاہتا۔ کان کھول کر سن لو تم اس بارے میں خاموش رہنا۔ یاللہ میں مجبور ہوں یاللہ میری مدد فرما! ’

’اچھا پھر مجھے بھی اس کے ساتھ لے جاؤ۔‘ خالدہ بھی اب فرش سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

مبارک کی آنکھیں ابل پڑیں۔ ’میں تمہیں بھی ساتھ لے جاتا اور اس ندامت کو مٹانے کے لئے تمہیں بھی اس کی قبر میں ڈال دیتا لیکن تم مر گئی تو ان چار بچوں کا کیا ہو گا!‘

’انہیں پھر تم خود پالنا۔‘

’خالدہ! مجھے اور غصہ نہیں دلاؤ۔ جمیلہ یا ہم سب! ہمارے قبیلے کی یہی روایت ہے، یہی ہمارے کنبے کا دستور ہے۔ اگر تم نے اپنی یہ بکواس جاری رکھی تو سب سے پہلے تمہارا نمبر آئے گا۔‘ مبارک نے خالدہ کو دھکا دیا اور سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔

خالدہ نے مبارک کے پاؤں پکڑ لئے اور فرش پر لیٹے لیٹے بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ ’تمہارا دل کیوں پتھر بن گیا ہے، کیوں! کیوں!‘ پھر اس نے مبارک کے ہاتھ کے لمس کو محسوس کیا۔

مبارک نے خالدہ کو اٹھا کر اپنے ساتھ لگا لیا اور زار و قطار رونے لگ گیا۔ ’خالدہ مجھے معاف کر دو۔ جمیلہ مجھے معاف کر دو۔ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مجھے اس خاندان کی عزت کو بچانا ہے۔ میں مجبور ہوں میں نے تو جمیلہ کو کبھی تھپڑ تک نہیں مارا لیکن اب میں مجبور ہوں۔ یاللہ مجھے معاف کر دینا۔‘

’نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گی ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ تم لوگوں سے اتنا کیوں ڈر رہے ہو۔ ہماری بیٹی تو مظلوم ہے انتہائی مظلوم اور تم اسی کو سزا دے رہے ہو۔ اگر مرد ہو تو جاؤ جنرل ناصر اور اس کے حوایوں کو مارو۔ انہوں نے نا جانے کتنے دن جمیلہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ مجھے لوگوں کی کوئی فکر نہیں ہے نہ ہی میں خاندان والوں سے ڈرتی ہوں۔ ان کو تو چاہیے کہ اس مظلوم کی مدد کریں، اسے واپس اس دنیا میں لے کر آئیں، اس کو اپنائیں، اس کو محبت دیں۔ یہ کتنے چھوٹے دماغ کے لوگ ہیں جن کی سوچ کا فکر تمہیں کھایا جا رہا ہے۔‘

’تمہیں پتا ہے کہ میری پہنچ ان درندوں تک نہیں ہے۔ وہ اپنی ایک الگ دنیا میں رہتے ہیں جہاں پرند چرند بھی جانے سے ڈرتے ہیں۔ نہیں خالدہ مجھے یہی کرنا پڑے گا جو میں فیصلہ کر چکا ہوں، میں کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا۔‘ مبارک نے ہلکے سے خالدہ کو پرے ہٹایا اور اوپر جا کر دھڑام سے بستر پہ گر گیا۔

خالدہ سیدھی باورچی خانے میں گئی اور الماری کے پیچھے دو انگلیاں ڈال کر بڑی مشکل سے ایک پڑیا نکالی، دودھ کو ہلکا سا گرم کر کے پڑیا کا پوڈر اس میں ڈال دیا اور بیڈ روم میں جا کر گلاس مبارک کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ’تم ابھی یہ دودھ پی کر سو جاؤ تمہاری طبیعت کچھ صحیح نہیں لگ رہی ہے۔‘

’خالدہ، حوصلے سے کام لو اسی میں ہمارا بھلا ہے۔‘

مبارک دودھ کا گلاس پینے ہی والا تھا کہ خالدہ چیخ پڑی۔ ’اس کو نہیں پیؤ، مجھے اچانک خیال آیا کہ یہ تو باسی ہو گیا ہے۔ نجانے کب سے باہر پڑا ہوا ہے۔ پریشانی میں کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔‘

خالدہ گلاس چھین کر باورچی خانے کی طرف بھاگی، اور سانس کو قابو کر کے گلاس ہاتھ میں پکڑے ہوئے جمیلہ کے کمرے کی طرف چل دی۔ ’یہ کیا کر رہی تھی میں! اس منحوس جمیلہ کی وجہ سے میں اپنے شوہر کو مار نے لگی تھی۔ میرا مبارک جو مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے، کبھی میں نے اس کے منہ سے شکایت نہیں سنی، کبھی اس نے مجھ سے اونچی آواز سے بات نہیں کی۔ یہ میں نے کیا کر دیا تھا!‘

جمیلہ کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ خالدہ نے بہت آہستہ سے دروازہ کھو لا۔ جمیلہ کمرے میں نہیں تھی۔ وہ فوراً پلٹی اور دودھ کے گلاس کو انڈیل کر اپنے بستر کی طرف بھاگی اور مبارک سے لپٹ گئی۔

’دیکھو خالدہ تمہیں بہت تیز بخار ہو رہا ہے۔ میں تمہیں پانی لا کر دیتا ہوں۔ تمہیں نیند کی ضرورت ہے۔‘ مبارک کی آواز کا ٹھہراؤ واپس آ گیا تھا۔

’لیکن جمیلہ کہا ں ہے؟ تم نے اسے کچھ کیا تو نہیں؟‘ خالدہ کا پورا جسم پسینے سے بھیگ رہا تھا۔
’میں تو بستر سے اٹھا ہی نہیں، وہ کسی اور بہن کے بستر پہ سو رہی ہو گی۔‘
۔ ۔ ۔ دو دن بعد۔ ۔ ۔

خالدہ صبح صبح اٹھ کر کچھ سودا خریدنے چلی گئی۔ اسے کافی حد تک یہ اطمنان ہو گیا تھا کہ مبارک کا بیٹی کے بارے میں ارادہ بدل چکا ہے۔ دونوں میں سے کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس موضوع کو چھیڑیں۔ باہر کا گیٹ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز آئی تو مبارک جلدی سے اٹھا اور اور جمیلہ کے کمرے میں گیا۔ ’جمیلہ، میری بیٹی اٹھو، آج سے تم اپنی نئی زندگی شروع کرو گی۔ سب سے پہلے تم اپنے دادا کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھو، مجھے آج جلدی کام سے جانا ہے تم فوراً تیار ہو جاؤ۔‘

جمیلہ سکتے میں آ گئی۔ مبارک نے اس کے بازو پکڑ کر جھنجھوڑا۔
’جی بابا۔ میں پانچ منٹ میں آتی ہوں۔‘

قبرستان پیدل پندرہ منٹ کے فاصلے پہ تھا۔ جمیلہ نے اسکارف سے اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا اور مجرم کی طرح نگاہیں نیچے کئی چل رہی تھی۔ راستے میں دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔

فاتحہ پڑھنے کے بعد مبارک نیچی آواز سے بولا۔ ’جمیلہ، مجھے یہ کرنا پڑے گا، پورے خاندان کی عزت کا سوال ہے۔‘ پھر مبارک نے تھوک نگلا۔ ’مجھے معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ انتہائی ظلم ہوا ہے لیکن میں مجبور ہوں‘ ۔ مبارک نے پستول نکالا اور کانپتے ہاتھوں سے جمیلہ کی طرف تان لیا۔ ’جمیلہ، ساتھ والی خالی قبر کے کنارے پر کھڑے ہو جاؤ۔‘

جمیلہ قبر کے کنارے پر ایک بت کی طرح کھڑی ہو گئی احساسات سے بالکل عاری۔ ’قید خانے میں میں نے انتہائی جسمانی ظلم برداشت کیے اور گھر آ کر آپ کا مجھ سے ناراض رہنا میرے لئے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اسے میں برداشت نہیں کر پاؤں گی لیکن میں خود کو مار نہیں سکتی۔ بابا گولی چلائیں ا اور مجھے اس اذیت ناک زندگی سے نجات دلا دیں۔ میں تیار ہوں!‘ اور اس نے آنکھیں میچ لیں۔

جمیلہ کچھ دیر ویسے ہی کھڑی رہی۔ پھر اس نے ماتھے پر بوسے کا لمس محسوس کیا تو آنکھیں کھول دیں۔ ’بابا دیر نہیں کریں اور اس کام کو اپنے لئے اور میرے لئے مشکل نہیں بنائیں۔‘

’میری بیٹی، لیکن اب تو میری بیٹی نہیں رہی۔‘ مبارک نے پیچھے ہٹ کر پھر جمیلہ کی طرف پستول تانا۔

’مبارک رک جاؤ مبارک رک جاؤ۔‘ خالدہ کی آواز سے قبرستان گونج رہا تھا۔

یہ افسانہ درج ذیل دستاویزی ویڈیو سے متاثر ہو کر لکھا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).