ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے گاؤں میں مستنصر حسین تارڑ کا دوست



1994 کے بعد پہلی بار ان چھٹیوں میں گاؤں جا پایا۔ دوپہر کے وقت ڈیوڑھی میں آرام کر رہا تھا کہ ایک پرندہ اندر داخل ہوا۔ مجھے دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹکا پھر میری کیفیت جان کر کہ میں اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا، پاس آ بیٹھا اور بات چیت شروع ہو گئی۔ میں نے اپنے بارے بتا کر اس کا احوال دریافت کیا تو کہنے لگا:

”ایک ’ریسرچر طبیعت‘ سیلانی پرندہ ہوں۔ سیروسیاحت کا شوق چرایا تو سوچا پورے ملک کا ایک ایک گاؤں، ایک ایک قریہ گھوم کر دیکھوں۔ یہاں پہنچا تو پتا چلا ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا گاؤں ہے۔ سوچا کچھ روز رک کر یہاں کا دانہ دنکا چکھوں، یہاں کا پانی پیوں اور لگے ہاتھوں ڈاکٹر صاحب کے بارے تھوڑی ریسرچ بھی ہو جائے۔“

”آس پڑوس میں ایسے بزرگ، جو اکیلے رہ رہ کر خود سے باتیں کرنے لگے ہوں، تلاش کرتا ہوں۔ کسی کونے میں چھپ کر ڈاکٹر صاحب کے بارے کوئی بات کر دیتا ہوں، وہ میری آواز کو نوائے سروش جان کر پرانے وقتوں کو یاد کرکے خوش ہوتے ہیں، جب ’حویلی‘ پوری طرح آباد تھی۔ ساتھ ہی افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس خاندان کے تقریباً سبھی لوگ دوسرے شہروں میں جا کر آباد ہو گئے۔ برسوں بعد کوئی آتا ہے ایک آدھ دن رہتا ہے اور پھر در و دیوار اس کو ترستے رہ جاتے ہیں۔ جب یہ بزرگ بولتے بولتے تھک کر سو جاتے ہیں تو میں آرام کرنے یہاں چلا آتا ہوں۔ پرسکون جگہ ہے۔ نہ کوئی آتا ہے، نہ کوئی جاتا ہے۔ آج تمہیں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ۔ ۔“

وہ لگاتار بول رہا تھا، میں سنتا جا رہا تھا۔ جب توقف کیا تو میں نے کہا: ایک مشہور رائٹر مستنصر حسین تارڑ صاحب جناح باغ میں ایک پرندے سے بات چیت کا تذکرہ۔ ۔ ۔

تارڑ صاحب کا نام سنتے ہی قہقہہ لگایا اور میری بات کاٹ کر جلدی سے بولا:

”وہ پرندہ میں ہی تو ہوں۔ ہوتا کچھ یوں کہ تارڑ صاحب منہ اندھیرے آ جاتے، دور دور تک کسی ذی روح کا نام نشان نہ ہوتا۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر پرانے فلمی گیت گنگنانے لگتے۔ گھونسلے کے پاس سے گزرتے تو میری آنکھ کھل جاتی۔ میں ایک روز تنگ آ کر بول پڑا، جسے تارڑ صاحب نے دوستی اور بات چیت سمجھ لیا۔ پھر تو یہ معمول بن گیا، تارڑ صاحب گھونسلے کے پاس آ کر آواز لگاتے اور میں شروع ہو جاتا۔ ۔ ۔“

پنجابی میں کہنے لگا:

”میں گالاں کڈھدا سی کہ بابا آپ تے تینوں نیندر اوندی نہیں ۔ سانوں تے سون دے۔ حالے پکھیرو وی ستے نیں تے تینوں واکاں سجھیاں نیں۔ ۔ ۔“ (میں گالیاں دیتا تھا کہ بابا جی خود آپ کو نیند آتی نہیں۔ ہمیں تو سونے دیں۔ ابھی پرندے بھی نہیں جاگے اور آپ کو واک کی پڑی ہے۔ ۔ ۔ )

ہم دونوں ہنسنے لگے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی:

”ایک روز پرندے کی فریاد سنوانے، ساتھ ایک اور بابا لے آئے اور لگے بلانے۔ میں نے یہ سوچ کر سانس کھینچ لی کہ آج دو بابے ہیں کل کو مجمع لگ جانا ہے۔“

اس بات پر خوب دل کھول کر ہنسا۔ پھر سنجیدہ ہو کر بولا:

”ایک روز مجھے خیال آیا کہ آخر پتہ تو چلے کہ یہ بابا ہے کون۔ اس روز سے میں نے تارڑ صاحب کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ جوں جوں مجھ پر تارڑ صاحب کی حقیقت واضح ہوتی جاتی، توں توں اپنی بدتمیزیوں پر احساس ندامت بڑھتا جاتا اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتا کہ انہیں پرندوں کی بولی سمجھ نہیں آتی اور وہ میری دشنام طرازی کو آواز دوست ہی سمجھتے رہے۔“

اور پھر بات ختم کرنے کے انداز میں کہنے لگا:

”یہ سیر و سیاحت کا چسکا تارڑ صاحب کی ہی تو دین ہے، انہوں نے ہی تو اس راہ پر لگایا کہ اپنے وطن کی مچھیوں ڈڈوؤں (مچھلیوں اور مینڈکوں ) تک کے بارے جان کاری حاصل کروں اور یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک کا قریہ قریہ، گاؤں گاؤں دیکھنے کے شوق کی آبیاری میں ان کے روحانی شاگرد فرخ سہیل گوئندی کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔ ۔ ۔“

بس قصہ یہیں تمام کرتا ہوں۔ پرندے نے دیگر تفصیلات ظاہر نہ کرنے کا وعدہ لیا تھا۔ تارڑ صاحب نے بھی تو اپنے یار کی شناخت صیغہ راز میں رکھی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں کون ہوں، کیا ہوں۔ نام پتا تو اس قصے کے عنوان کے ساتھ دے ہی دیا ہے۔ مزید جان کر کیا کریں گے۔ رہنے دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).