کرنال اور ملتان ایک گھر میں رہتے ہیں!


میں لمحہ موجود میں سانس لیتا ہوں لیکن زندہ میں اس لمحے میں ہوں جب میں نے اپنی دھرتی، اپنے شہر کی مٹی کو آخری دفعہ دیکھا۔ میں اس وقت میں جیتا ہوں جب مجھ سے میرا گھر چھوٹا اور میں اپنے محلے، اپنے شہر، اپنی سرزمین سے جدا ہوا۔

مجھے آج بھی وہ گلیاں بلاتی ہیں جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈھلتی شام میں کھیلا کرتا جب تک سورج کی سنہری لو ملجگے اندھیرے میں نہ بدل جاتی۔ تب میری آیا مجھے کھینچ کے اندر لے جاتی جہاں میری ماں میرا انتظار کر رہی ہوتی۔

مجھے اب بھی لاہوری گیٹ اپنے پاس بلاتا ہے۔ ہمارے گھر کو راستہ حرم گیٹ سے بھی جاتا تھا۔ میں ہر رات یو ٹیوب پہ ملتان کی وڈیوز دیکھتا ہوں، گوگل میپس پہ اپنا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔ نقشے کو زوم کرتا ہوں، اور، تھوڑا اور

وہ دراز قد، غلافی آنکھوں اور تیکھے نین نقش والی لڑکی ہماری طرف گھومی اور سریلی آواز میں ایک جملہ ہماری سماعت سے ٹکرایا،

کے تساں پنجاب دھے راہون والے او” (کیا آپ پنجاب کی رہنے والی ہیں )

جی ہاں” ہم نے سر ہلایا۔

تساں سرائیکی اچ گال کر سکدے او مینڈھے نال؟

( کیا آپ سرائیکی میں میرے ساتھ بات کر سکتی ہیں میرے ساتھ)

میں سرائیکی اچھی طرح سمجھ لیتی ہوں، آپ بات کریں

تساں ملتان ڈھٹھا وے کہ نئیں” ( آپ نے ملتان دیکھا ہے کیا؟)

میں نے ملتان میں چار برس گزارے ہیں

ملتان اچ جہیڑا گئے اوئے، اوں ولے لہوری گیٹ ڈھٹھا اے” ( آپ نے کبھی لاہوری گیٹ دیکھا؟)

نہیں، میں کبھی نہیں گئی وہاں، کیا آپ ملتان دیکھ چکی ہیں،

ہمارا لہجہ حیرت و استجاب سے بھرپور تھا.

وت ملتان میں ڈھٹھا وی اے تے میں محسوس وی کرینی آں،

(میں ملتان دیکھتی ہوں اور محسوس بھی کرتی ہوں )۔

ملتان مینڈھے گھار اچ رہندا اے، میں ملتان تے سائے تلے وڈی تھیئ آں

(ملتان میرے گھر میں رہتا ہے اور میں اس کے سائے میں بڑی ہوئی ہوں)۔

یہ تھیں کرنال کی ڈاکٹر مینو سہگل جن سے ملاقات کے بعد ہم پہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ڈاکٹر مینو کی آنکھوں میں ملتان کے نام پہ تارے دمکتے تھے اور سرائیکی لہجہ اور شیریں ہوا جاتا تھا۔

ہمارے استفسار پہ انہوں نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی کہ تقسیم سے قبل ان کے پڑدادا رائے بہادر رائے زادہ رام بخش سہگل ملتان میں درجہ اول کے مجسٹریٹ، پشتوں سے ملتان میں آباد، بڑے زمیندار، لاہوری گیٹ میں حویلیوں کے مالک تھے۔ مینو کے دادا ہرن نند سہگل نے زمینداری سنبھالی اور تایا سیرت رام سہگل باپ کے نقش قدم پہ چل کے ایڈوکیٹ بنے۔ ہرن نند سہگل کی چھ اولادوں میں سب سے چھوٹے رائے زادہ سندر کمار سہگل مینو کے والد، تقسیم کے وقت پانچ چھ برس کی عمر میں ملتان سے رخصت ہوئے۔ وہ سب چلے تو گئے لیکن اپنے وجود کا ایک ٹکڑا ملتان میں چھوڑ گئے اور بدلے میں ملتان کا کچھ حصہ ساتھ لے گئے جو آج بھی کرنال میں ان کے ساتھ بستا ہے۔

رخصت ہونے والوں کو سرائیکی سے محبت کچھ اس قدر تھی کہ اوائل عمری میں جنم بھومی کو چھوڑ دینے والوں کے تن بدن میں قائم تو رہی ہی، یہ محبت اگلی نسل کو بھی منتقل کر دی گئی۔ اس کے گواہ ہم تھے کہ کرنال کانونٹ کی فارغ التحصیل ڈاکٹر مینو فر فر انگریزی کے ساتھ سرائیکی یوں بولتی تھیں، جیسے ابھی ابھی کبیر والہ، لودھراں یا مظفر گڑھ سے اٹھ کے سیدھی یہیں آئی ہوں۔

ہمارے دادا کانام اصل میں رام چند سہگل تھا لیکن ان کے ایک مسلمان موکل نے انہیں محبت سے رام بخش سہگل کہہ کے پکارنا شروع کیا اور پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوئے

ہمارے گھر کی گلی بہت چوڑی تھی۔ پکی اینٹیں لگی تھیں اس میں، چھوٹی پکی اینٹیں

سامنے تاؤ سیرت رام سہگل کا گھر تھا، ان کے گھر لگا نلکا مجھے ابھی بھی یاد ہے

ہماری بہت زرعی زمین تھی اور ساتھ میں باغات۔ ہمارے گھر انار اور کینو کی بوریاں آیا کرتیں

ہمارا باغ جی ٹی روڈ کے کنارے تھا، اب وہاں شاید ٹول پلازہ ہے

ہمارے گھر ساہیوال کی گائے تھی جو بہت دودھ دیا کرتی تھی

اپنی بگھی یاد ہے جس میں دو سیاہ مشکی گھوڑے جوتے جاتے اور گرمیوں کی شاموں میں ہم بچے اس میں بیٹھ کے باہر نکلتے

باؤ جی کے پاس بہت مہمان آتے، سارا وقت حقہ سلگتا رہتا۔ باؤ جی بہت مہمان نواز تھے۔ سردیوں میں مہمانوں کے لئے پچاس ساٹھ انڈے ابال دیے جاتے، ساتھ میں کینو۔ گرمیوں میں آم اور گنڈیریوں سے تواضع کی جاتی

جب کرنال پہنچ کے میں سکول میں داخل ہوا تو میرے استاد مجھے تختی پہ یہ عبارت لکھواتے، رائے زادہ سندر کمار سہگل ملتان سے کرنال آیا

ہمیں یہاں نواب لیاقت علی خان کے بھائی کا گھر الاٹ ہوا۔ ان کا اپنا گھر ڈسٹرکٹ ہسپتال کے سامنے تھا۔ ان کے نام کا وارڈ آج بھی ہسپتال میں ہے

کرنال میں قلندری گیٹ، نواب گیٹ اور ارائیں گیٹ کے علاقے آج بھی موجود ہیں

کرنال میں گوجرانوالہ سے آنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ شروع شروع میں سب کو بہت امید تھی کہ واپس اپنے گھر بار کو جائیں گے

ہمارے گھر جو گوالا دودھ دیتا ہے، اس کے ابا گوجرانوالہ سے آئے تھے، بہت باتیں کرتا ہے وہ گوجرانوالہ کی

لوگ ابھی بھی اپنی جنم بھومی کو یاد کرتے ہیں اور ہم نے اپنی اگلی نسل میں یہ محبت منتقل کی ہے

ملتان دیکھنے کو بہت دل کرتا ہے، آخر کرنال سے پانچ سو میل دور ہی تو ہے ہمارا ملتان

ہمارے بڑے تو یاد کرتے چلے گئے، ہم بھی عمر کی آخری سیڑھی پہ کھڑے ہیں

میرے بچے ملتان کو یو ٹیوب اور گوگل میپس پہ دیکھتے ہیں اور میرا بیٹا نیتن سہگل تو یہ بھی جانتا ہے کہ ملتان میں اچھی ربڑی کی دوکان کون سی ہے

ہم نے رائے زادہ سندر کمار سہگل کی زندگی کی کتھا فون پہ انہی کی زبانی سنی اور ڈاکٹر مینو کا آبدیدہ ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ان کے پاپا سے پنجابی میں بات کر کے اور چاچا جی کہہ کے اس مرتبے پہ فائز ہو گئے ہیں جہاں وہ اپنے پوتے پوتیوں کو بتاتے ہیں کہ مینو کے علاوہ ان کی ایک اور بوا جی بھی ہیں اور مینو کے بھائیوں کی ایک دیدی ہے جس نے ملتان کا پانی پی رکھا ہے۔

رائے زادہ سندر کمار سہگل ایڈوکیٹ گلوگیر آواز میں کہہ رہے تھے،

بیٹا، انسانی محبت کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔ ہندو ہوں، مسلمان یا سکھ، سب اک دوجے سے محبت کرتے ہیں۔ باقی جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ تو سرکار کی مرضی ہوتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).