یورپ میں مذہبی اصلاحات


اب اس بات کو پانچ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب مارٹن لوتھر نے اپنے پچانوے تھیسس 1517 میں لکھے اور مذہبی اصلاحات کا ایسا دور شروع ہوا جس نے مغرب میں روشن خیال اور روادار معاشروں کی بنیاد رکھی۔

اس کے مقابلے میں اگر ہم اپنے برصغیر پر نظر ڈالیں تو پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں یہاں بھی کچھ مذہبی تحریکیں شروع ہوئیں جن میں بھگتی تحریک، مہدوی تحریک جس کی قیادت سید محمد جون پوری کر رہے تھے، بابا گرونانک کی تحریک جو آگے چل کر سکھ مت کی شکل میں ایک نیا مذہب بن کر ابھری، شہنشاہ اکبر کا آئین راہ نمونی جسے بعد میں کچھ لوگوں نے دین الٰہی کا نام دیا اور شیخ احمد سرہندی یا مجدد الف ثانی کی تحریک جو اکبر کی مذہبی تبدیلیوں کے خلاف تھیں۔

ہندوستان میں ان تحریکوں کے اسباب ونتائج یورپ کی مذہبی اصلاحات سے بالکل مختلف تھے۔ اس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ پانچ صدی قبل یورپ میں کیا مذہبی تبدیلیاں ہوئیں اور مغربی تہذیب و تمدن نے ان سے کیا فائدے اٹھائے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ یورپ میں ان اصلاحات کے ساتھ بڑی خوں ریزی بھی ہوئی جب کہ ہمارے خطے میں ان مذہبی تحریکوں سے کچھ زیادہ سبق حاصل نہیں کیے گئے اور اگر کیے بھی تو ان کی وسعت یورپ کے مقابلے میں بڑی محدود رہی۔

غالباً سب سے بڑا فرق رینے ساں یا نشاة ثانیہ کا تھا جس میں ثقافتی اور دانش ورانہ معرکے سر کیے گئے جس نے یورپ کا نقشہ بدل دیا اور اصلاحات کا راستہ کھلا جب کہ ہندوستان میں ہمیں ایسی کوئی نشاة ثانیہ یا نئی زندگی نظر نہیں آئی جس نے یہاں کے مذہبی نقشے کو بنیادی طور پر بدل دیا ہو۔ یورپ میں مذہبی اصلاحاتی تحریکوں سے قبل کا دانش ورانہ ماحول ایسا تھا جس میں لاطینی اور یونانی ادب اور فلسفے کو دوبارہ پڑھا اور سمجھا گیا۔

اس سے انسان دوستی کے رجحانات بڑھے اور مذہبیت کے گہرے رنگ سے بتدریج یورپ نکلتا گیا۔ اس نئی انسان دوستی نے فطرت کے حسن و جمال کو سراہا اور ترک دنیا سے پرہیز کیا۔

قرون وسطیٰ کا کیتھولک ذہن زمینی سرگرمیوں کو ناپسند کرتا تھا جب کہ خود پادری اور حکم ران اپنے لیے ہر طرح کی آسائشیں روا رکھتے تھے۔ اسی دور میں جب انسان دوستی کا آغاز ہوا تو یقین محکم کی جگہ تجسس اور تحقیق نے لینی شروع کردی، تنقیدی شعور بے دار ہوا جو ہمیں ہندوستان میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ گوکہ یہاں بھی کچھ اکادکا ایسی سرگرمیوں کے جزیرے تھے وہ کبھی بھی پوری کی طرح بالادستی حاصل نہ کرسکے۔

دانش ورانہ دل چسپیوں کے افق جس طرح یورپ میں روشن ہوئے اس کا پرتو ہمیں ہندوستان میں نہیں ملتا۔ مثلاً چھاپے خانے کی ایجاد اور نئے راستوں کی دریافت نے یورپی آبادی کو ہلاکر رکھ دیا اور یہ ہل چل صرف چند لوگوں تک محدود نہیں رہی۔ اسی طرح یورپ کی پھیلتی ہوئی تجارتی سرگرمیاں مزید دریافتوں کا باعث بنیں اور یورپی تہذیب و تمدن پھیلنا شروع ہوا۔ اس طرح دانش ورانہ تحریکوں نے ایک طرح سے یورپ کی نئی تجارتی زندگی کے ساتھ مل کر کام کیا جوکہ ہندوستان میں بالکل نہیں ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی معاشرہ مجموعی طور پر ساکت و جامد اور غذائی طور پر خود کفیل تھا جب کہ یورپی معیشت اور تجارتی زندگی ایک دوسرے پر انحصار کرتے تھے۔

ہندوستان اور یورپ کی مذہبی تحریکیوں کے فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یورپ میں بتدریج فیوڈلزم یا جاگیردارانہ نظام ٹوٹتا گیا اور قومی وحدت پر مبنی ریاستیں وجود میں آتی گئیں۔ جاگیرداری ٹوٹنے سے یورپ کی مذہبی وحدت بھی انتشار کا شکار ہوتی گئی جس کا مرکز رومن کیتھولک کلیسا ہوا کرتا تھا۔

گوکہ ہندوستان میں کوئی ایک متحد کلیسا نہیں تھا پھر بھی ہرشعبہ زندگی میں مذہب نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ کلیسائے یورپ اور ہندوستانی مذاہب دونوں نے اپنے حلقہ اثر میں روحانی اختیار قائم رکھنے کی جدوجہد کی۔

کلیسائے روم نے عام زندگی میں زیادہ منظم طریقے سے بالادستی حاصل کررکھی تھی جبکہ ہندوستان میں ایسا نسبتاً کم تھا۔ دونوں جگہ مذاہب نے اپنے اخلاقی اثر کے بل پر عوامی حمایت قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کلیسائے یورپ کے پاس بڑی زمینیں اور مادی دولت بے حساب تھیں جس سے اس کے اثرو نفوذ میں استحکام تھا جب کہ ہندوستان میں صورت حال مختلف اس لیے تھی کہ یہاں زیادہ تر حکم رانوں کا مذہب اسلام تھا جب لوگوں کی اکثریت ہندو تھی۔

شاید اسی لیے یورپ میں سیاسی رہ نماؤں نے تاریخی طور پر کلیسائے روم کی بالادستی قبول کررکھی تھی جب کہ ہندوستان میں زیادہ تر حکم رانوں نے مذہبی رہنماؤں کو ایسی کوئی قبولیت نہیں بخشی تھی۔

قرون وسطیٰ کے کلیسا میں مکمل آمریت تھی جب کہ ہندوستان میں ایسی کسی مذہبی آمریت کا وجود نہیں تھا۔ ہندوستان میں مذہبی وحدت ناپید تھی جبکہ کلیسائے روم کا پورا انحصار ایسی مذہبی وحدت پر تھا جسے للکارنا بہت مشکل تھا۔ گوکہ دونوں جگہ مذہب عام زندگی کو بڑی حد تک متاثر کرتا تھا ان کا رجحان اور نوعیت بہت مختلف تھے۔

یورپ میں ایک اور عنصر مقدس رومی شہنشاہیت یا ہولی رومن ایمپائر کا تھا جو یورپ کے بڑے حصے میں مسیحی شہزادوں اور بادشادہوں پر بالادست تھی گوکہ کبھی کبھی ان دعوؤں سے انحراف بھی کیاجاتا تھا۔ یہ مقدس رومی شہنشاہیت دراصل جرمن مقامی حکم رانوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد تھا جس کی قیادت ایک منتخب شہنشاہ کرتا تھا۔

جرمنی کے علاقوں میں تقریباً تین سو جاگیردارانہ ریاستیں تھیں جو مل کر مقدس رومی شہنشاہیت یا ہولی رومن ایمپائر تشکیل دیتی تھیں جس وقت مذہبی نئی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ نیشنل جیوگرافک کے ”ہسٹری“ میگزین نے اپنے ستمبر اکتوبر 2014 کے شمارے میں مارٹن لوتھر پر ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے اس میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ میسحیت میں اصلاحات کی بنیادیں چودہویں اور پندرہویں صدی میں ڈ الی گئیں۔ اس وقت مذہی رہ نماؤں مثلاً جان ویکلف اوکسفرڈ میں سن تیرہ سو بیس سے تیرہ سو پچاس کے درمیان اور جان ہنس سن تیرہ سو ستر سے چودہ سو پندرہ کے درمیان پراگ کی یونیورسٹی میں کلیسائے روم کو للکا رہے تھے۔

ویکلف نے کلیسا کی دولت کی مذمت کی اور انا جیل پڑھنے پر زیادہ زور دیا۔ اس کا خیال تھا کہ انجیل مقدس کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے۔ اس سے متاثر ہوکر جان ہس نے بھی روایات سے زیادہ بائبل کو مقامی زبانوں میں پڑھانے پر زیادہ زور دیا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).