الزام تراشی اور نتائج


روز ایک نیا پنڈورا باکس کھل جاتا اور دن بھر اس پر رج کے گفتگو ہوتی۔ نہ ڈر، نہ خوف خدا جو جی میں آئے کہہ دو۔ شکورن چچی کی یہ عادت دن بدن پختہ ہوتی جا رہی تھی۔ کام کیا تھا بس ہر وقت کسی نہ کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا، کہیں سے کوئی بات، کوئی راز اس کے ہاتھ لگے اور یہ پورے محلے میں ڈھنڈورا پیٹنے اور الزام تراشیاں کرنے میں مصروف ہو جائے اور کہتی پھرے ؛ ارے دیکھو! سنو تو سہی!

تمہیں معلوم ہے؟ وہ فلاں کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی بیٹی ایسی ہے! اس کا بیٹا یوں ہے۔ وہ تو ایسے ایسے ہیں۔ ۔ ۔ اس نے تو فلاں کو ایسا ویسا کہا۔ ۔ ۔

یہ عادتیں اس میں اتنی مضبوط اور پختہ ہو چکی تھیں کہ اللہ کی پناہ!

ایک شاطر وکیل کی طرح سادہ لوح لوگوں سے باتیں اگلوانا، پھر نیوز ایجنسی کی طرح اس کو محلے میں نشر کرنا اس کا پیشہ بن گیا تھا۔ اس کی عادات سے اکثر لوگ نالاں تھے۔ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر سلام دعا کرتے اور نکلتے جاتے۔

بعض سمجھانے والے بھی اس کے پاس آتے اور اسے بتاتے کہ دیکھو بی بی! اسلام ہمیں یہ ان سے منع کرتا ہے۔ وہ اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے :

”یٰۤایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن۔ ان بعض الظن اثمٌ و لا تجسسوا و لا یغتب بعضکم بعضاًؕ۔ ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتاً فکرہتموھؕ۔ و اتقوا اللٰھؕ۔ ان اللٰہ توابٌ رحیمٌ۔“

”اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔“

وہ بتاتے کہ کسی پر الزام نہ لگاؤ، پردہ پوشی کرو، تجسس اور ٹوہ میں نہ لگے رہو؛ کیونکہ یہی وہ چیزیں ہوتی ہیں جو معاشرے میں لوگوں کے درمیان منافرت پھیلاتی ہیں، ایک دوسرے کے دلوں میں کدورت بھرتی ہیں، دوریاں بڑھاتی ہیں، دلوں میں کھوٹ پیدا کرتی ہیں، بستے گھر اجاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ”

وقتی طور پر تو ان باتوں کا اس پر اثر ہوتا، کبھی رک بھی جاتیں ؛ مگر وہ کہتے ہیں ناں! ”جب دل ہی پتھر ہو جائیں تو پھر کتنے بھی واعظ و نصیحت کر لو فرق نہیں پڑتا۔“

یوں ہی وقت، لمحے، مہینے، سال گزرتے گئے، سب سے بڑے استاد زمانے کا رنگ بھی بدلتا گیا، تغیر و تبدل ہوتا گیا۔ وقت نے کروٹ بدلی، دوسروں کی بربادی کرتے کرتے جب اپنے گھر کی طرف نظر دوڑائی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اپنی اولاد نافرمانی کرنے لگی، شوہر نے منہ پھیر لیا۔ تنہائی گھیرنے لگی، احساس محرومی ستانے لگا۔ اپنی کارستانیاں ایک ایک کر کے سامنے آنے لگیں۔ اب احساس ہوا کہ کیا کر بیٹھی۔ ۔ ۔

ساری زندگی جھوٹ، الزام تراشی، غیبت، بہتان جیسے سنگین جرائم میں گزری۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

لیکن دیر سے ہی سہی مگر احساس ندامت تو ہوا۔ اب اس نے ہمت باندھی اور تمام ان لوگوں کے پاس معافی کی طلبگار بن کے گئی، جن کو کبھی دکھ پہنچایا تھا، برا بھلا کہا تھا۔ ان سے بخشش کی بھیک مانگنے گئی تھی، وہ لوگ بھی تو خدا ترس تھے اس کی حالت زار دیکھی، دل سے نہ سہی مگر کہتے چلے گئے جا تجھے معاف کیا! تجھے اپنے کیے کی سزا مل چکی ہے۔

اب اسے احساس ہوا کہ اس عارضی دنیا میں کیوں ہم اپنی آخرت کو بھول جاتے ہیں؟ کیوں مخلوق خدا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتے ہیں؟ کیوں لوگوں کے گھروں کی خرابی چاہتے ہیں؟ کیوں حسد، بغض، لالچ، نفرتیں لئے دلوں میں پھرتے ہیں؟ کیا مال ودولت طاقت اور وقتی غرور و تکبر آخرت کے عذاب سے بچا لے گا؟ کیا ابدی سکون مل پائے گا؟

اورنگ زیب ارمان
Latest posts by اورنگ زیب ارمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).