چین امریکہ تجارتی مذاکرات شروع ہونے پر اب کیا امیدیں ہیں
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی مذاکرات کا سلسلہ جو اس سال جنوری میں منقطع ہو گیا تھا اگلے چند دنوں میں بحال ہو رہا ہے۔
دنیا کی دو معاشی طاقتیں سنہ 2018 سے تجارتی کشمکش میں الجھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس سال جنوری میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے برآمد کی جانے والی اشیاء پر پابندیوں میں نرمی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات گزشتہ چھ ماہ سے کئی مسائل کی وجہ سے شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے درمیان دو چینی سوشل میڈیا ایپس ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی وجہ سے بھی تلخی ہوئی تھی اور ان پر قومی سلامتی کے بارے میں تحفظات کی بنا پر امریکہ میں پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کے ایپس پر تنازع واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بہت سے دیگر معاملات جن میں ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے نافذ کیے جانے والے نئے سکیورٹی قوانین، چین کمپنی ہواوے کا کاروبار اور کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر شدید اختلافات میں ایک اور اضافہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چین اور امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟
تجارتی جنگ: آخر امریکہ چین سے چاہتا کیا ہے؟
ایف بی آئی کے سربراہ: ’چین امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘
چین کا ردعمل، چنگدو میں امریکی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم
دنیا کی دو بڑی معیشتوں میں نازک تجارتی تعلقات جو پہلے ہی اختلافات کا شکار ہیں دیگر متنازع معاملات کی وجہ سے مزید پیچیدگی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ میں عالمی تجارت کے ماہر نِک مارو نے بی بی سی کو بتایا کہ فریقین ان مذاکرات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ ایک دوسرے کا درجہ حرارت کیا ہے اور وہ جنوری کے بعد اب کہاں کھڑے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘بیجنگ میں پالیسی ساز لوگوں سے ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اب وہ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ کیا اب بھی انہیں وہ تجارتی معاہدہ قابل قبول ہے جس سے چینی کمپنیوں پر امریکی دباؤ کم کرنے میں بہت کم مدد ملی تھی۔‘
حال میں امریکہ میں چینی کمپنیوں وی چیٹ، ٹک ٹاک اور ہواوے پر شدید اعتراضات کیے گئے تھے اور ٹرمپ انتظامیہ نے درجنوں چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے۔
لندن میں قائم مشاورتی فرم آئی ایچ ایس مارکِٹ کے چیف اکانومسٹ راجیو بسواس کا کہنا ہے کہ ‘امریکی حکومت ابھی مزید اقدامات اٹھائے گی تاکہ امریکی ڈیٹا چین کی کمپنیوں کے ‘کلاؤڈ’ سسٹم میں محفوظ کرنے سے روکا جا سکے اور اس کے ساتھ ہی زیر سمندر امریکہ کو عالمی انٹریٹ سے جوڑنے والے تاروں کے جال کے استعمال پر بھی اثر پڑے گا۔‘
تجارتی جنگ کیس شروع ہوئی؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک عرصے سے چین پر غیر منصفانہ تجارتی حربے اور تخلیقی حقوق کی چوری کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب چین میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ امریکہ چین کو ایک عالمی معاشی طاقت بننے سے روکنا چاہتا ہے۔
امریکہ اور چین نے اس تجارتی جنگ میں ایک دوسرے کے ملکوں سے درآمد کی جانے والی اشیا پر اربوں ڈالر کے ٹیکس لگانا شروع کر دیا۔
سنہ 2018 میں شروع ہونے والی ادلے بدلے کی اس کشمکش میں ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے ٹیکس لگائے گئے اور یہ جنگ اس وقت سے جاری ہے۔
اس سال کے شروع میں کچھ برف پگھلی جب دونوں ملکوں میں ان پابندیوں کو قدرے نرم کرنے پر اتفاق ہوا جس کو مذاکرات کے ’پہلے مرحلے‘ کا معاہدہ کہا جا رہا ہے۔
’پہلے مرحلے‘ کا معاہدہ کیا تھا؟
چینی حکام کے مطابق جنوری میں ہونے والے پہلے مرحلے کا معاہدہ دونوں ملکوں کی ’جیت‘ تھا۔
چین نے پہلے مرحلے میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ امریکہ سے اپنی درآمدات میں سنہ 2017 کی تجارت کے مقابلے میں دو سو ارب ڈالر کا اضافہ کرے گا جن میں 32 ارب ڈالر کی زرعی مصنوعات اور 78 ارب ڈالر کی دیگر صنعتی مصنوعات شامل ہوں گی۔
چین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ چین میں تخلیقی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے جائیں گے اور اس کی چوری کے خلاف اقدامات اٹھائیں گے۔
اس کے بدلے میں امریکہ نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ چینی مصنوعات پر لگائے گئے ٹیکسوں کو نصف کر دے گا۔
گو کہ بہت سے ٹیکسوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی تھی لیکن ان مذاکرات کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ان سے کم از کم برف پگھلی ہے۔
چین اور امریکہ اب کہاں کھڑے ہیں؟
معاہدہ ہونے کے بعد چھ ماہ سے زیادہ کے عرصے میں صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوئے ہیں اور عالمی تجارت کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
راجیو بسواس کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی نوعیت کی وجہ سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آنے والے مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت ہو سکے گی۔
چین کی طرف سے کرائی گئی اس یقین دہانی پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ سال 2020 اور 2021 میں امریکہ سے دو سو ارب ڈالر کی اشیاء خریدے گا۔
یہ بھی پڑھیے
’چین امریکی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘
امریکہ، چین تجارتی جنگ ’انٹرنیٹ کو تقسیم کر رہی ہے‘
’روس نہیں اب چین امریکہ کا عسکری حریف‘
معاہدے کو حتمی شکل دیے جانے سے پہلے ہی کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ ایک مشکل ہدف ہے۔ کورونا وائرس سے چین اور امریکہ کی معیشتوں میں سست روی کی وجہ سے یہ ہدف حاصل کرنا مزید دشوار ہو گیا ہے۔
ان ورچول مذاکرات میں دونوں طرف سے حکام اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ کیا یہ ہدف ابھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
عالمی تجارت کے ماہر نِک مارو کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ یہ معاہدہ برقرار رہے گا کیونکہ دونوں ملکوں کے لیے اس سے انحراف کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہوگا۔
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).