بی آر ٹی پشاور: سوچ میں ایک تبدیلی


پشاور باسیوں کو مبارک اور ڈھیروں مبارک۔ اب وہاں جدید اربن ٹرانسپورٹ سسٹم آ گیا ہے۔ وہاں کے رہنے والے ان لوگوں کو جن کے پاس اپنی کار نہی یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ منصوبہ سوچنے والے بنانے والے اور عوام تک پہنچانے والے سبھی ذہنوں اور ہاتھوں کو داد دینی بنتی ہے۔

منصوبہ پشاور میں کیوں بنا دیگر شہروں میں کیوں نہی؟

پشاور صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ رقبے آبادی وسائل کے اعتبار سے۔ کے پی کے کا سب سے زیادہ ریوینو اور ٹیکس یہیں سے اکٹھا ہوتا۔ شہر جغرافیائی طور بھی سب سے بڑا سو اس شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا خاص کر فیملی سمیت باقی شہروں کی نسبت مشکل ہے۔ یہاں اربن ٹرانسپورٹ سسٹم بننے سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ دیگر شہروں میں بھی بنیں گے وقت کے ساتھ ساتھ مگر ابتدا وہاں سے جہاں زیادہ ضرورت ہے۔

اسے اتنی دیر کیوں لگی۔

حکومتوں کے بیسیوں مسائل ہیں۔ گاؤں کی ایک سڑک بنتے بنتے عرصہ لگ جاتا یہ تو ہھر اربن ٹرانسپورٹ ہے۔ اصل بات ہے بن گئی ہے۔ دیر سویر کی خیر ہے۔ زیادہ داد مل جاتی اگر چھ سے آٹھ ماہ یا سال میں بن جاتی۔

کیا کرپشن ہوئی؟

ہوئی ہو گی۔ وطن عزیز میں ہر منصوبے میں مال پانی تو بنایا جاتا۔ اس کی تحقیق تفتیش ہونی چاہیے؟ بالکل ہو نی چاہیے۔ کیا ہو گی؟ بالکل ہو گی مگر ابھی نہی۔ جب کلغی والوں کا اس سرکار سے جی اچاٹ ہو گیا تو کہیں نہ کہیں سے کوئی کرپشن کوئی بے ضابطگی ڈھونڈھ لائیں گے۔ میڈیا سوشل میڈیا پر شور مچا دیں گے کیس چلے گا، لٹکے گا، فیصلہ نہیں ہو گا، بس چلتا رہے گا، گندے ہوتے رہیں گے تا وقتیکہ دوبارہ سرکار میں نہ آجائیں۔

کیا کرائے میں سبسڈی وغیرہ دی گئی؟

کرایہ پانچ سے چالیس روپے ہے۔ اس دور میں سائیکل رکشہ کا کرایہ بھی اس سے زیادہ ہے۔ سرکار نے سبسڈی دی۔ اسے سبسڈی کی بجائے مالی معاونت کہہ دیا۔ چلو جو بھی کہہ دیا عوام کو تو فائدہ ہوا۔

کیا اربن ٹرانسپورٹ ضروری کہ تعلیم وصحت؟

ان کا تقابل بنتا ہی نہی۔ سبھی ضروری ہیں۔ سبھی ازحد ضروری ہیں۔ سکول اور ہسپتال بھی اور اس سکول ہسپتال تک جانے کا راستہ و ذریعہ بھی۔ نوکری اور کاروبار بھی اور وہاں پہنچنے کی ٹرانسپورٹ بھی۔

ہر علاقے کے اپنی ضرورت ہے۔ ایک کے بننے سے دوسری کی ویلیو کم نہی ہوتی۔
کیا اس شہر کی کلاسیکل بیوٹی ختم ہوئی ہے؟

ہوئی ہو گی۔ جدید ترقی میں جدید خوبصورتیاں آ جاتی ہیں۔ شہر بڑے ہو گئے ہیں سو ترقی سے نقشہ تو بدلے گی۔ کچھ لوگ جو معاشرے کو تیزاب سے غسل دینے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں وہ کہیں گے کہ شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ سارے بڑے شہر ایسے ہی ہیں۔ کیا کریں۔ کلاسک خوبصورتی کا خیال تھا تو سینتالیس سے ہی نئے شہر بنا لیتے۔ پہلے سے موجود شہروں کو نہ بڑا ہونے دیتے۔

لوگ تنقید کر رہے کچھ ان کے بارے کیا کہا جائے؟

کرتے رہیں۔ موٹر ویز، آئی پی پیز، سی پیک پنجاب میٹروز اینڈ اورنج ٹرین۔ ۔ ۔ لوگ تو تنقید کرتے رہتے ہیں قافلے چلتے رہتے ہیں۔

کیا تنقید منصوبوں کی تکنیکی خامیوں اور کرپشن پر ہے؟

بہت اچھی بات ہے لوگ مطلب ہے توجہ دے رہے اور شفاف و بہترین کی مانگ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتیں غور سے سنئیے۔

کیا کچھ لوگ اس اربن ٹرانسپورٹ منصوبے کی بنیادی ضرورت سے ہی انکار کر رہے ہیں؟

چھوڑئیے انہیں۔ عقل کے اندھے ہیں۔ رانگ نمبر ہیں۔ خود بڑی گاڑی سے باہر کبھی قدم نہی رکھا۔ انہیں کیا پتہ ہمارے مسائل۔ ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے ایسے نکال دیں جیسے اس ممی ڈیڈی سقراط زماں دیسی سٹیو جابز کی اس بات کو کیا تھا کہ

”پہلے بچے کی صحت پھر تعلیم پھر ٹافیاں وغیرہ کی عیاشی لہذا میٹرو نہی بننی چاہیے“

کے پی کے کا پروجیکٹ مجھے پنجاب والے سے زیادہ اچھا لگا کہ پنجاب میں اس پروجیکٹ سے صرف سفر سہولتیں ملی تھیں مگر کے پی کے میں سفری سہولت تو ملی مگر ایک زناٹے دار تھپڑ بھی رسید کیا ان سیاستدانوں دانشوروں صحافیوں اور ان کے اندھے معتقدین پر جو ایک عشرے سے اربن ٹرارنسپورٹ کے مختلف پراجیکٹس کی ضرورت سے ہی منکر رہے اور الٹے سیدھے نام رکھتے رہے۔

ربن ٹرانسپورٹ کا ویژن لانے والوں، پلان کرنے والوں فنڈ دینے والوں اور بنانے والے سبھی لوگوں کو سلام۔ پشاور باسیوں کو مبارک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).