کیا انڈیا میں لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سے بڑھا کر 21 سال کرنے سے ان کی زندگی بہتر ہو گی؟


شادی

انڈیا کی حکومت لڑکیوں کے لیے شادی کی قانونی عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے پر غور کر رہی ہے۔

رکن پارلیمان جیا جیٹلی کی زیرصدارت 10 ارکان پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جو جلد ہی اپنی تجاویز پیش کرے گی۔

انڈیا میں شادی کی کم از کم عمر لڑکوں کے لیے 21 اور لڑکیوں کی 18 سال ہے۔ کم عمر میں شادیوں کے خلاف 2006 کے قانون کے تحت یہ شادیاں غیر قانونی قرار دی گئی تھیں اور اس جرم میں دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

انڈیا کے بڑے شہروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور کریئر کے بارے میں بدلتی سوچ کی وجہ سے ان کی شادی عام طور پر 21 سال کی عمر کے بعد ہی ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ اثر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں پر پڑے گا جہاں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کو تعلیم دلوانے اور نوکری حاصل کرنے پر زور کم ہی دیا جاتا ہے، گھر میں بہتر خوراک نہیں ملتی اور طبی سہولیات تک رسائی مشکل ہے اور پھر ان کی جلد شادی کرنے کا رواج عام ہے۔

کم عمری میں شادی کے معاملات بھی ان ہی علاقوں میں زیادہ پیش آتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانونی بدلاؤ سے لڑکیوں کی زندگیاں بہتر ہوں گی یا نہیں۔

شادی

ممتا کی شادی ہونے والی تھی

کیا شادی کی کم از کم عمر میں اضافے سے لڑکیوں کی زندگی بہتر ہو گی؟

کچھ سماجی تنظیموں نے ان خدشات کے بارے میں تجربات کو شیئر کرنے اور اس تجویز سے اختلاف پر اظہار کے لیے ایک ٹاسک فورس ‘ینگ وائسز نیشنل ورکنگ گروپ’ تشکیل دی ہے۔

اس کے تحت جولائی کے مہینے میں 15 ریاستوں میں خواتین اور بچوں کی صحت اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی 96 تنظیموں کی مدد سے، 12 سے 22 سال کی عمر کے 2500 لڑکے اور لڑکیوں سے ان کی رائے جاننے کے لیے کہا گیا تھا۔

براہ راست سوال کے جوابات بہت ٹیڑھے تھے اور نہ صرف مختلف آرا سامنے آئیں بلکہ حکومت کو متعدد طریقوں سے آئینہ دکھا کر لڑکیوں نے کچھ اور مطالبات پیش کیے۔

راجستھان کے شہر اجمیر کی ممتا جانگیڑ کی طرح جنھیں شادی کی عمر میں اضافے کی تجویز اچھی نہیں لگی جب کہ وہ خود بھی بچپن کی شادی کا شکار ہوتے ہوتے بچی تھیں۔

شادی

گیارہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہو جاتی

ممتا 19 سال کی ہیں۔ جب ان کی بہن آٹھ سال کی تھیں اور وہ 11 سال کی تھیں تب ان کے گھر والوں پر دونوں بہنوں کی شادی کرنے کا دباؤ ڈالا گیا۔

راجستھان کے کچھ حصوں میں وٹا سٹہ کی روایت ہے یعنی جس گھر میں لڑکا شادی کرتا ہے اس گھر کو لڑکے کے کنبے کی لڑکی سے شادی کرنا پڑتی ہے۔

اس لین دین کے تحت ممتا اور اس کی بہن سے شادی کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن ان کی والدہ نے ان کا ساتھ دیا اور بہت لعنت ملامت کے باوجود بھی ان کی ماں اپنے فیصلے پر قائم رہیں اور اپنی دونوں بیٹیوں کی زندگیاں ’خراب‘ نہیں ہونے دیں۔

یہ سب اس وقت ہوا جب قانون کی رو سے 18 سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی تھی۔ ممتا کے مطابق اس حد کو 21 میں تبدیل کرنے سے بھی کچھ نہیں بدلے گا۔

انھوں نے کہا ’لڑکی کو تعلیم نہیں دی جاتی اور نہ ہی انھیں کمانے دیا جاتا لہٰذا جب وہ بڑی ہوتی ہیں تو بوجھ سمجھی جاتی ہیں ایسے میں اپنی شادی کی بات کی مخالفت کیسے کریں۔

’والدین 18 تک انتظار نہیں کرتے تو 21 تک وہ انھیں کیسے روکیں گی۔‘

شادی

ممتا چاہتی ہیں کہ حکومت لڑکیوں کے لیے سکول اور کالج کھولے، ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے تاکہ وہ پراعتماد بنیں اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوں۔ ان کی شادی ان کی مرضی سے ہونی چاہیے حکومت کے کسی اصول کے مطابق نہیں۔

’یعنی اگر کوئی لڑکی 18 سال کی عمر میں شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ بالغ ہے اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔‘

دنیا کے بیشتر ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے۔

انڈیا میں 1929 میں شاردا ایکٹ کے تحت لڑکوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 اور لڑکیوں کے لیے 14 سال رکھی گئی تھی۔

1978 میں ترمیم کے بعد یہ حد لڑکوں کے لیے 21 سال اور لڑکیوں کے لے 18 سال کر دی گئی تھی۔

سال 2006 میں بچپن کی شادی کی روک تھام کے قانون نے انہی حدود کو اپناتے ہوئے اور کچھ بہتر دفعات کو شامل کرکے ان قوانین کی جگہ لی۔

یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کی شادی کے معاملات میں مسلسل کمی آ رہی ہے اورگذشتہ دہائی میں جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے کمی آئی ہے۔

18 سال سے کم عمر کی شادیوں کے واقعات سب صحارا افریقہ میں 35 فیصد جبکہ جنوبی ایشیا میں 30 فیصد ہوتے ہیں۔

18 سال سے کم عمر کی شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے

یونیسیف کے مطابق 18 سال سے کم عمر میں شادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔ اس سے پڑھائی چھوٹنے، گھریلو تشدد اور ولادت کے دوران موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

انڈیا میں بچے کی پیدائش کے دوران پیدا ہونے والی پریشانیوں کی وجہ سے ماؤں کی اموات کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔‘

یونیسیف کے مطابق یہ تعداد سنہ 2000 میں ایک لاکھ تین ہزار سے کم ہو کر سنہ 2017 میں 35 ہزار ہو گئی۔ بہر حال ملک میں نوعمر لڑکیوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے۔

کیا شادی کی عمر بڑھانے سے اس چیلنج کو دور کرنے میں مدد ملے گی؟

’ینگ وائسز نیشنل ورکنگ گروپ‘ کی دویا مکند کا خیال ہے کہ ماں کی صحت کا تعلق صرف حاملہ ہونے کی عمر سے نہیں خاندان میں خواتین کی ناقص اور کم حیثیت کی وجہ سے ہے۔

انھیں اچھی خوراک نہیں ملتی ہے اس کا اثر زیادہ عمر میں حاملہ ہونے پر بھی پڑ سکتا ہے۔ زمینی حقائق بھی پیچیدہ ہیں۔

شادی سے پہلے جنسی تعلق

انڈیا میں جنسی تعلقات کی رضامندی کی عمر 18 سال ہے۔ اگر شادی کی عمر میں اضافہ کیا گیا ہے تو 18 اور 21 کے درمیان جنسی تعلقات ‘شادی سے پہلے جنسی تعلقات’ کے زمرے میں آئیں گے۔

شادی سے پہلے جنسی تعلقات قانونی تو ہیں لیکن معاشرے نے ابھی تک انھیں قبول نہیں کیا ہے۔

شادی

دیمنی ملازمت کے بعد شادی کرنا چاہتی ہیں

‘ینگ وائسز نیشنل ورکنگ گروپ’ کی کویتا رتنا کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورتحال میں خواتین کے لیے مانع حمل اورصحت سے متعلق دیگر سہولیات تک رسائی کم ہو جائے گی یا کافی لعن طعن اور پریشاینوں کے بعد حاصل ہو گی۔

متعدد لڑکیاں اس حق میں بھی ہیں کہ شادی کی کم سے کم عمر بڑھا کر 21 سال کر دی جائے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ قانون کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کو شادی سے روکنے میں کامیاب رہیں گی۔

اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کی زندگی میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بدلا ہے اور اگر انھیں بااختیار نہیں بنایا گیا تو پھر یہ قانون بچوں کی شادی کو نہیں روک پائے گا اس کے بعد یہ کام چھپ کر کیا جائے گا۔

دامنی سنگھ اترپردیش کے ہردوئی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہیں۔ 70 خاندان والے اس گاؤں میں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

دامنی کے مطابق شادی دیر سے ہونی چاہیے لیکن عمر کے حساب سے نہیں بلکہ جب لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے اور کمائی کرنے لگے تب ہی اسے رشتہ بنانا چاہیے اب چاہے اس کی عمر جو بھی ہو۔

ان کے گاؤں یں صرف پانچ خاندانوں میں عورتیں باہر جا کر کام کرتی ہیں۔

دامنی کا کہنا ہے کہ غریب خاندان لڑکیوں پرپیسہ خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں ایسے میں وہ اپنی پڑھائی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ دامنی کے مطابق حکومت کو لڑکیوں کے لیے تربیتی مراکز کھولنے چاہئیں تاکہ وہ خود کفیل ہوسکیں اور اپنے فیصلے خود کرسکیں ۔

پرینکا

پرینکا لڑکیوں کی تربیت کیے جانے کی بات کرتی ہیں

لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے والی سوچ

جھارکھنڈ میں سرائکیلا کی پرینکا مرمو حکومت کی تجویز کی مخالف ہیں اور دامنی اور ممتا کی طرح بہتر تعلیم اور طبی سہولیات کی ضرورت کے بارے میں بات کرتی ہیں۔

ان کے بقول بنیادی مسئلہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھنا ہے اور جب تک کہ یہ سوچ تبدیل نہیں ہوتی شادی کی عمر 18 یا 21 سال کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر لڑکیاں کمانا شروع کر دیں تو ان پر شادی کا دباؤ کم ہوگا۔

پرینکا کا دعویٰ ہے کہ ان کے علاقے میں ابھی بھی بچپن کی شادیاں ہوتی ہیں حالانکہ ’لوگ موجودہ قانون سے واقف ہیں لیکن انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اگر ایسے معاملے میں سخت کارروائی کی گئی تو کچھ تبدیلیاں ضرور آئیں گی بصورت دیگر شادی کی عمر 21 سال کرنے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلے گا کیوں کہ گھر میں لڑکی کی آواز دبی ہی رہے گی۔‘

وہ چاہتی ہیں کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح برابری کے حقوق حاصل کریں۔

قانون کے غلط استعمال کا خدشہ

شادی

شادی کی کم سے کم عمر بڑھانے سے ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کی بجائے ان کے والدین اپنے مطلب کے لیے اس کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔

دویہ مکند کے مطابق ’جب 18 سالہ بالغ لڑکیاں اپنی پسند کے لڑکے سے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنا چاہیں گی تو والدین قانون کی آڑ لے کر انھیں روکنے کا کوئی راستہ تلاش کریں گے نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے ان کے لیے خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔‘

اس بات چیت میں زیادہ تر لڑکیوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس میں ان کی رائے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ شادی کو اپنی زندگی کا مرکز بنائے جانے سے تنگ آ چکی ہیں، وہ اپنی زندگی کی سمت اور حالات کا فیصلہ اپنے حساب سے کرنا چاہتی ہیں۔

کویتا کا کہنا تھا کہ ‘وہ آزادی اور اختیار چاہتی ہیں کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں اس میں اگر حکومت مدد کرے تو بہتر ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp