انڈیا میں نوجوانوں کے دل کمزور کیوں ہونے لگے ہیں؟


فروری 2016 میں ایک سرد رات کو 29 سالہ امت اپنی رضائی میں سوئے خوابوں کی دنیا کی سیر کر رہے تھے۔ تقریباً صبح کے چار بجے ان کے سینے میں درد ہونے لگا۔ درد اس قدر زیادہ تھا کہ ان کی نیند کھل گئی۔ جسم پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ گھر پر کوئی نہیں تھا جو امت کو ہسپتال لے کر جاتا۔

ایک گھنٹے تک امت تکلیف میں تڑپتے تہے۔ اس کے بعد تکیلف کم ہوگئی یہاں تک کہ وہ سو گئے۔ جب وہ صبح اٹھے تو انھیں روزمرہ کے کام کرنے میں بھی مشکل آ رہی تھی۔

جب بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ چل بھی نہیں پا رہے تھے تو انھوں نے ڈاکٹر پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ امت کی شکایت سننے کے بعد ڈاکٹر نے انھیں ایکو کارڈیگرام (ای سی جی) کروانے کی تجویز دی۔ ایکو کارڈیگرام سے پتا چلا کہ 36 گھنٹے قبل انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔

ڈاکٹر کی باتیں سنتے سنتے امت کے ہوش اڑ گئے۔ انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنی نوجوانی میں انھیں دل کا دورہ کیسے پڑ سکتا ہے۔

اعداد و شمار سے پتا چلاتا ہے کہ انڈیا میں نوجوانوں میں عارضہِ قلب دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔

24 مئی کو وفاقی وزیر اور بی جے پی کے رکن بندارو دتاریہ کے بیٹے بندارو وشنوو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے۔ ان کی عمر صرف 21 سال تھی اور وہ حیدرآباد میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

اطلاعات کے مطابق رات گئے کھانا کھانے کے بعد انھوں نے سینے میں درد کی شکایت کی تھی اور جب ان کی فیملی انھیں ہسپتال لے کر پہنچی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ مر چکے ہیں۔

سنہ 2015 میں امریکہ میں ایک تحقیقاتی جریدے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد دل کے امراض میں مبتلا تھے اور ان میں سے دو کروڑ سے زیادہ افراد کی عمرعمر 40 برس سے کم تھی۔

یعنی انڈیا میں 40 فیصد کے قریب دل کے مریضوں کی عمر 40 برس سے کم ہے۔ انڈین شہریوں کے لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے۔

हार्ट अटैक, स्वास्थ्य

iStock

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے تیزی سے یہ شرح انڈیا میں بڑھ رہی ہے۔

عالمی صحت کے اعداد و شمار جمع کرنے والی ویب سائٹ ہیلتھ ڈیٹا کے مطابق قبل از وقت اموات کی وجوہات میں 2005 میں دل کے امراض تیسرے نمبر تھے۔ 2016 میں یہ پہلے نمبر پر ہیں۔

دس پندرہ سال پہلے دل کے امراض بڑی عمر کے لوگوں کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا مگر گذشتہ ایک دہائی کے اعداد و شمار کوئی اور کہانی سناتے ہیں۔

انڈیا کے معروف ڈاکٹر اور ماہرِ امراضِ قلب ایس سی منچندا کا کہنا ہے کہ ملک کے نوجوانوں کے دل کمزور ہوگئے ہیں۔

हार्ट अटैक, स्वास्थ्य

iStock

ان کے خیال میں کمزور دل ہونے کی وجوہات میں سرِ فہرست نیا پرزِ زندگی ہے۔

ان کے خیال میں پانچ عناصر انتہائی اہم ہیں:

  1. زندگی میں سٹریس یعنی پریشانی
  2. برا طرزِ خوراک
  3. رات گئے تک کمپیوٹر پر کام کرتے رہنا
  4. تمباکو نوشی، اور شراب نوشی میں اضافہ
  5. ماحولیاتی آلودگی

ڈاکٹر منچندا کہتے ہیں کہ 29 سالہ امت ہوں یا 21 سالہ وشنوو دونوں کیسز میں ان پانچوں میں سے کوئی نہ کوئی عنصر دل کے دورے کی وجہ بنی۔

امت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 22 سال کی عمر سے وہ سگریٹ بھی پی رہے ہیں۔ 29 سال کی عمر تک وہ چین سموکر بن چکے تھے۔

مگر اب دل کا دورہ پڑنے کے دو سال بعد وہ سگریٹ چھوڑ چکے ہیں۔ اور آج بھی وہ دن کی تین ادویات کھاتے ہیں۔

اب وشنوو کے بارے ایسی معلومات موجود نہیں ہیں مگر زندگی میں پریشانی عام بچوں کی زندگی میں بھی آنے لگی ہے۔ اسی طرح طلبہ کے غلط اوقات پر کھانا کھانے کی عادت بھی کافی زیاہ ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دل کے دورے کی سب سے بڑی علامت سینے میں شدید درد ہونا ہے۔ مریض کے سینے میں شدید درد ہوتی ہے اور انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے سینے پر شدید دباؤ ہے۔ تاہم ایسا ہر بار نہیں ہوتا۔

جب دل تک خون نہیں پہنچتا تو دل کا دورہ پڑتا ہے۔ عموماً ایسا خون کے راستے میں کسی رکاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی دل کا دورہ پڑنے میں درد نہیں ہوتی۔ اسے خاموش دل کا دورہ کہتے ہیں۔

دل کے امراض دنیا میں مہلک ترین بیماریوں میں سب سے آگے ہیں۔ 2016 میں مختلف امراض کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں 53 فیصد افراد دل کے امراض کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

انڈین میڈیکل اسوسی ایشن کے ڈاکٹر آگروال کا کہنا بہے کہ ’عموماً مینو پاز کی عمر سے کم عمر کی خواتین میں دل کے امراض نہیں ملتے ہیں۔

اس کی وجہ ان خواتین میں پائے جانے والے ہارمونز ہیں۔ تاہم آج کل مینو پاز کی عمر سے پہلے ہی خواتین میں دل کے امراض پائے جاتے ہیں۔‘

پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر ریڈی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی خاتون تمباکو نوشی کرتی ہیں، یا بہت عرصے تک کونٹرسیپٹوو پل کھاتی رہی ہیں تو ان کے جسم کی دل کے امراض سے لڑنے کی قدتی مداقعت میں کمی آ جاتی ہے۔

ڈاکٹر ریڈئ کا کہنا ہے کہ مینوپاز کے پانچ سال بعد بھی خواتین میں دل کے دورے کا خطرہ مردوں کے برابر جا کر پہنچتا ہے۔

بہت سارے تحقیقاتی جائزوں میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ خواتین سینے میں درد پر غور نہیں کرتیں اور عام طور پر اس سلسلے میں علاج کے لیے قدرے دیر سے آتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp