کورونا وائرس: دنیا کے سات ارب لوگوں کی ویکسینیشن کس طرح ہو گی؟


Glass vials

دنیا بھر میں مختلف ٹیمیں کووڈ۔19 کے خلاف موثر ویکسین بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اسے ’ہماری زندگیوں کی سب سے ضروری مشترکہ جدوجہد کہا ہے۔‘

لیکن اسے بنانے کے ہائی ٹیک فارمولے سے ہٹ کر ذرا سوچیں کہ اس ویکسین کو دنیا بھر میں سات ارب لوگوں تک پہنچایا کس طرح جائے گا۔

برطانیہ میں اس کوشش کا گڑھ آکسفورڈشائر میں واقع رائل ایئر فورس کی سابق ایئر بیس پر قائم ہارویل سائنس کیمپس ہے۔

یہ برطانیہ کا ویکسین مینوفیکچرنگ اینڈ انوینشن سینٹر (وی ایم آئی سی) ہو گا، جسے کووڈ۔19 کی وجہ سے جلدی جلدی بنایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

’میں آکسفورڈ کی کورونا ویکسین کے تجربے کا حصہ ہوں‘

کورونا ویکسین کے لیے دنیا کی نظریں انڈیا پر کیوں

وی ایم آئی سی کے چیف ایگزیکیٹیو میتھیو ڈوچرز کہتے ہیں کہ ’ہم نے واقعی ٹائم لائن کو سکیڑ کر آدھا کر دیا ہے۔ سو جہاں ہم اسے 2022 کے آخر تک تیار کرنے کی توقع کر رہے تھے، وہیں ہم امید کر رہے ہیں کہ یہ 2021 تک آن لائن ہو گی۔‘

’جیسے کیک بناتے ہیں‘

ڈوچرز نے ابھی تک گرمیوں کی چھٹیاں نہیں لی ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ شاید جلد ہی اس جگہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین بن رہی ہو۔ وہ آکسفورڈ میں موجود جینر سینٹر کی ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بڑی ذمہ داری ہے۔

’اس طرح کی ویکسینز جلدی سے اور موثر طریقے سے بنانا نہایت اہم ہے، نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا بھر کے لیے۔‘

’اس طرح سمجھ لیں کہ یہ گھر پر ایک کیک بنانے کے مترادف ہے۔ آپ ایک بہترین کیک بنانے کی تیاری میں گھنٹوں صرف کر سکتے ہیں اور اب آپ کو باہر جا کر سات ارب بنانے ہیں اور ان سب کو بالکل درست ہونا چاہیئے، سو اس لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔‘

یہ تو اس کی ایک ہلکی سے تشبیہہ تھی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی نے پہلے ہی لیبارٹری کے لیے اتنی عارضی جگہ حاصل کر لی ہے جہاں وہ اب ویکسین تیار کرنا شروع کر سکتی ہے، اس کے عالمی ٹرائلز کے نتائج سے بھی پہلے۔

ویکسین کا بین الاقوامی اتحاد ’گیوی‘ دنیا بھر کے ملکوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ ابھی سے ویکسین کی تقسیم کے متعلق سوچنا شروع کر دیں۔

جنوبی افریقہ میں ٹرائل

جنوبی افریقہ میں ویکسین کے انسانی ٹرائلز شروع ہو چکے ہیں

لیکن بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا آسان نہیں ہے، کیونکہ کئی امیر ملک دوائیں بنانے والی کمپنیوں سے باہمی معاہدے کر رہے ہیں کہ اگر جادوئی فارمولا مل بھی گیا تو وہ مطلوبہ سپلائی پہلے ہی حاصل کر سکیں گے۔

مفادات پر قابو پانا ہے

کیوی کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر سیٹھ برکیلے کہتے ہیں کہ انھیں جن رکاوٹوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک سب سے بڑی ’ویکسین نیشنل ازم‘ بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں سبھی ممالک کو اس کے متعلق عالمی طور پر سوچنا چاہیئے، نہ صرف اس لیے کہ ایسا کرنا ٹھیک ہے بلکہ اس لیے بھی کہ مفاد کا مسئلہ بھی ہے۔‘

’اگر آپ کے ارد گرد کے ممالک میں وائرس ایک بڑی تعداد میں موجود ہو گا، تو آپ معمول کے مطابق پہلےکی طرح تجارت، سفر اور لوگوں کی حرکت کی طرف واپس نہیں جا سکیں گے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھی جائے کہ ہم اس وقت تک محفوظ نہیں ہوں گے جب تک سب محفوظ نہیں ہوں گے۔‘

اس بات کی کوشش کے علاوہ کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مناسب مقدار میں ویکسین دستیاب ہو، سیٹھ برکیلے کو ویکسین کے غیر دلچسپ پہلوؤں پر بھی دھیان رکھنا پڑ رہا ہے جیسا کہ کیا دنیا میں اتنی تعداد میں چھوٹی شیشیاں موجود ہیں جن میں ویکسین دی جا سکے۔ اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ طبی استعمال کے لیے شیشے کی پیداوار میں بھی کچھ ممکنہ رکاوٹیں موجود ہیں۔

مزید پڑھیئے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس: آکسفورڈ ویکسین ٹرائل کے نتائج حوصلہ افزا

کورونا ویکسین سے متعلق جھوٹے اور گمراہ کن دعوؤں کی حقیقت

برکیلے کہتے ہیں کہ ’ہم اس کے متعلق پریشان تھے، سو ہم نے پہلے ہی دو ارب خوراکوں کے لیے شیشیاں خرید لی ہیں، اور یہ اتنی خوراکیں ہیں جس کے متعلق ہم امید کر رہے ہیں کہ 2021 کے آخر تک تیار ہو چکی ہوں گی۔‘

’اگر شیشے کی شیشیاں ممکنہ مسئلہ ہیں، تو فرج بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں، کیونکہ اکثر ویکسینز کو کم درجہ حرارت پر رکھنا ہوتا ہے۔‘

ٹھنڈا رکھنا ہے

برمنگھم یونیورسٹی میں کولڈ چین لاجیسٹکس کے ماہر پروفیسر ٹوبی پیٹرز گیوی جیسی تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں کہ وہ کیسے ترقی پذیر ممالک میں پہلے سے موجود چیزوں کی ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیتوں کو بڑھا سکتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صرف ویکسین کا فرج نہیں ہے، اس میں عموماً بہت سے دوسرے حصے بھی ہوتے ہیں: اس میں وہ بچھونے بھی ہیں جن پر رکھ انھیں جہاز کے اندر پہنچایا جاتا ہے، وہ گاڑیاں بھی جو انھیں لے کر مقامی سٹورز تک جاتی ہیں اور پھر وہ موٹر بائیکس اور لوگ جو انھیں دوسرے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان سب کو بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنا ہے۔‘

شیشے کی بوتلیں

بہت سی شیشے کی چھوٹی بوتلیں اور انھیں ٹھنڈا رکھنے کے لیےبہت سے فرج درکار ہیں

پروفیسر پیٹرز فوڈ اینڈ ڈرنکس کی عالمی کمپنیوں سے رابطے میں ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ آیا ان سے کولڈ چین سٹوریج ادھار لی جا سکتی ہے تاکہ اس دیو قامت پراجیکٹ میں مدد مل سکے۔

ویکسین کے رول آؤٹ کو قابلِ انتظام بنانے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ ان کی آبادی میں لوگوں کے متعلق ترجیحات کیا ہیں۔

لائن میں پہلے کون ہو گا؟

ڈاکٹر چارلی ویلر برطانیہ کی ویلکم ٹرسٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملکوں کو کچھ مشکل سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔

’اس ویکسین کی کسے ضرورت ہے؟ کون سے سب سے زیادہ خطرے والے گروہ ہیں؟ اور سب سے زیادہ ترجیحات والے کون؟ کیونکہ جو چیز بالکل واضح ہے وہ یہ ہے ابتدائی ویکسین کی طلب سپلائی سے زیادہ ہو گی، اس لیے یہ پہلے سے طے کر لینا چاہیئے۔‘

حقیقت میں ویکسینیشن بھی اتنی آسان نہیں ہو گی۔

مثال کے طور پر برطانیہ ایک ایسی نظام کے استعمال کا سوچ رہا ہے جس میں ساری آبادی تک پہنچنے کے لیے پولنگ سٹیشنوں کے نیٹ ورک کو استعمال میں لایا جائے گا۔ لیکن غریب ممالک میں یہ اور بھی مشکل ہو جائے گا۔

ڈاکٹر ویلر کہتے ہیں کہ صحت کا مضبوط نظام بہت اہم ہے، جس میں وہ ہیلتھ کیئر ورکرز ہوں گے جن کے پاس ٹارگٹ گروپس کو امیونائز کرنے کی مناسب تکنیکی صلاحتیں ہوں گی۔

سبھی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ کسی طرح کی ویکسین ضرور مل جائے گی۔ لیکن ان میں سے اکثر کہتے ہیں کہ یہ سوچ کر ان کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں کہ اربوں لوگوں تک پہنچنے کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کام کرنے کا ضرورت ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp