کیا انڈیا نے سعودی عرب کو پاکستان سے چھین لیا ہے؟


انڈیا

جمعرات کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ایک تاریخی معاہدہ طے پایا، جس کے مطابق اسرائیل مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو الحاق کرنے والے اپنے منصوبوں کو ملتوی کرے گا اور دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کا آغاز ہو گا۔

اب تک اسرائیل کے خلیج کے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اس معاہدے کا اعلان خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس معاہدے سے فلسطینی رہنما سخت حیران ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے اس معاہدے کے بعد عرب لیگ کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔

انھیں خدشہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد دیگر خلیجی ممالک کے بھی اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہوں گے اور اس کا اثر ’عرب امن معاہدے‘ پر پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

تاریخ متحدہ عرب امارات کے ’منافقانہ طرز عمل‘ کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی: ترکی

’انڈیا کو سعودی عرب کی ضرورت ہے‘

سعودی عرب انڈیا کے قریب کیوں آ رہا ہے؟

اسلامی ممالک کی پولرآئزیشن

فلسطین

اسرائیل کے زیرِ انتظام غرب اردن کے شہر ہیبرون میں فلسطینی شہری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں

ایک طرح سے ان کی تشویش بھی جائز ہے۔ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے پر دیگر اسلامی ممالک کا ابتدائی رد عمل ان کے لیے کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ مصر اور اردن نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

یہ پیش رفت خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مابین تعلقات کو متاثر کرے گی جن میں انڈیا بھی شامل ہے۔

اس نئے معاہدے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں پولرائزنگ نظر آرہی ہے۔

اسرائیل میں رہنے والے سینئر صحافی ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کے مسلم ممالک واضح طور پر تین کیمپوں میں منقسم ہیں۔

پہلے کیمپ میں کچھ ممالک ایران کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں جس کا اسرائیل کے بارے میں سخت موقف ہے۔

دوسرے کیمپ کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات لیڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک تیسرا گروپ ترکی، ملائشیا اور پاکستان کا ہے۔ مجموعی طور پر، اس فیصلے کے بعد عالم اسلام کی تقسیم میں مزید اضافہ ہوگا۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے کا انڈیا پر کیا اثر پڑے گا؟

ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے کا انڈیا پر کیا اثر پڑے گا۔ ٹائمز آف انڈیا کی سفارتی ایڈیٹر اندرانی باغچی کے مطابق، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات دونوں کے ساتھ انڈیا کے اچھے تعلقات ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں علاقائی سلامتی کے حوالے سے اسرائیل اور انڈیا کی سوچ ایک جیسی ہے۔ متحدہ عرب امارات ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ لہذا، اگر یہ دونوں ممالک اکٹھے ہو رہے ہیں تو انڈیا اس کا خیرمقدم کرے گا۔

لیکن کیا ان دونوں ممالک کے اکٹھے ہونے سے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے والے معاملے پر کوئی اثر پڑے گا؟

اس بارے میں ادرانی کا کہنا ہے ’پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔ لیکن ہم اس حقیقیت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اسلامی ممالک پر ہمیشہ پاکستان کا غلبہ رہے گا۔ اسلامی ممالک میں تن تنہا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ اس وجہ سے، اسلامی ممالک میں اس کا ایک مختلف درجہ ہے۔ ‘

وہ کہتی ہیں کہ اگر آج پاکستان تھوڑا سا الگ تھلگ ہے تو اس کی وجہ خود اور اس کی پالیسیاں ہیں۔

ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان کے ساتھ سمجھا جاتا تھا، لیکن کچھ عرصے سے انڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئے ہیں۔

اس کی مثال کے طور پر انھوں نے گذشتہ سال اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس کا ذکر کیا ہے جس میں انڈیا کو خصوصی مبصر کے طور پر بلایا گیا تھا حالانکہ پاکستان ایسا نہیں چاہتا تھا۔ پاکستان اس دعوت کے خلاف تھا لیکن متحدہ عرب امارات نے ان کی ایک نہیں سنی۔

پاکستان فیکٹر

پانچ دہائیوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اس اجلاس میں انڈیا کو بلایا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں، رواں سال ہونے والے او آئی سی کے سالانہ اجلاس میں پاکستان نے انڈیا پر اسلاموفوبیا پھیلانے کا الزام عائد کیا، جسے مسترد کردیا گیا۔ اس مرتبہ مالدیپ انڈیا کی حمایت میں اترا تھا۔

ہریندر مشرا کا کہنا ہے ’بالاکوٹ حملے کے بعد بھی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ قربت دیکھی گئی۔ کئی مرتبہ ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں جن کے مطابق انڈیا کے پائلٹوں کو بچانے میں سعودی عرب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے پاکستان پر بہت دباؤ تھا۔

حال ہی میں جب پاکستان نے او آئی سی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں سوالات اٹھائے تب سعودی عرب نے انھیں واضح طور پر بتایا تھا کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔

اس کے بعد پاکستانی رویے کے پیش نظر، سعودی عرب نے پاکستان کو دیا گیا ایک ارب ڈالر کا قرض واپس مانگ لیا، جو پاکستان نے 2018 میں لیا تھا۔

2019 میں، متحدہ عرب امارات نے وزیر اعظم مودی کو اپنے ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے نوازا تھا۔

یہ ساری پیشرفت بتاتی ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ انڈیا کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں اور اگر اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کا معاہدہ طے پا گیا ہے تو یقیناً انڈیا، اسلامی ممالک کے اس گروہ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

دوسرے خلیجی ممالک، جو اس معاہدے کے حامی ہوں گے، ان کے بھی انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے۔ اس سے انڈیا کو پاکستان کو الگ تھلگ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

صرف یہی نہیں، جہاں دنیا ملٹی پولاآئزیشن کی جانب گامزن ہے، وہیں انڈیا، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ایک بڑے گروپ کی صورت میں ابھر رہے ہیں۔

ہریندر مشرا انڈیا پر اس فیصلے کا ایک اور بڑا اثر دیکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انڈیا اور اسرائیل کے درمیان دفاعی سازو سامان بنانے کے لیے متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

خلیجی ممالک دفاعی سازوسامان کی ایک بڑی منڈی سمجھے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا، اسرائیل کی مدد سے جو بھی فوجی سازوسامان بنائے گا، اسے فروخت کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔

انڈیا کے وزیر دفاع نے دفاعی شعبے میں ’خود انحصار انڈیا‘ کا نعرہ بھی لگایا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے بعد، سعودی عرب کی باری ہے

انڈیا

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مابین دوستی بھی مشہور ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب بھی متحدہ عرب امارات کی راہ پر گامزن ہوگا۔

لیکن اندرانی کی رائے کی قدرے مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شاید سعودی عرب پوری طرح کھل کر اسرائیل سے تعلقات نہیں بنائے گا۔

اور اس کے پیچھے وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مذہبی معاملات کی بات کریں تو مشرق وسطیٰ میں سبھی سعودی عرب کی جانب دیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے اسرائیل کے ساتھ ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، سعودی عرب کے لیے کھلے عام یہودیوں کا ساتھ دینا مشکل ہوسکتا ہے اگرچہ سیاسی طور پر سعودی کئی سالوں سے اسرائیل کے ساتھ ہے۔

اندرانی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے انڈیا اور اسرائیل کے مابین ایئرلائن شروع کرنے کے لیے انڈیا کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اسرائیل کے بارے میں سعودی رویہ کس طرح بدلا ہے، یہ اس کی ایک مثال ہے۔

لیکن ہریندر مشرا ایسا نہیں سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ایک پرانی کہاوت ہے دوست کا دوست، دوست اور دوست کا دشمن، دشمن ہے۔ ابھی سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کا دشمن ایران ہے۔ لہذا اس بات کا کافی امکان ہے کہ مستقبل میں بھی دونوں اکٹھے ہوں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو امریکی صدر کی پریس کانفرنس سے بھی اس کی نشاندہی ہوتی ہے۔

معاہدے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ، امریکی صدر نے کہا ’اب جب ’برف‘ پگھل چکی ہے، مجھے امید ہے کہ کچھ اور عرب مسلم ممالک متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔‘

اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین دوستی

انڈیا

درحقیقت اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بھی یہی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ ہو۔ اس وقت اسرائیل میں ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ان پر رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ کورونا کی وبا سے صحیح طریقے سے نہ نمٹنے کا بھی الزام ہے۔

ایسی صورتحال میں وہ چاہتے ہیں کہ جتنے زیادہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں گے، وہ فلسطینیوں کو الگ تھلگ کرنے میں زیادہ کامیاب ہوں گے اور اسرئیل کے لیے ایک مثبت ماحول پیدا کرنا اتنا ہی آسان ہوگا۔

اس کے علاوہ، اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ایران کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں کے مابین پچھلے کچھ سالوں میں باہمی تعاون بھی رہا ہے۔

آج عرب دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کی دشمنی مذہبی بنیادوں پر قائم ہے۔ ایران شیعہ اکثریتی ملک ہے جبکہ سعودی عرب سنی اکثریتی ملک ہے۔

امریکہ کا دوست ہونے کے ناطے، اسرائیل ہمیشہ ایران کے نشانے پر رہتا ہے۔ امریکہ کی وجہ سے اسرائیل – متحدہ عرب امارات کے معاہدے کے بعد، اب ایران اور اسرائیل کے بیچ دشمنی میں مزید اضافہ ہوگا۔

متعدد مواقع پر اسرائیل کے آرمی چیف اور دیگر رہنماؤں نے ایسے بیانات دیے ہیں، جن میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کا مفاد مشترکہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران ہمارے لیے ایک خطرہ ہے اور ہم مل کر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دونوں ممالک کچھ عرصے سے ایران کے خلاف انٹیلیجنس معلومات بھی شئیر کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے خود یہ بات قبول کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp