عرب و عجم کی جنگ اور ہم سب


محمد عمر فاروق

\"umar\" عربوں کو ہمیشہ ہی اپنی برتری کا خمار رہا ہے۔ ان کی اس ذہنیت سے تقریباََ ہر صاحب فہم واقف ہے۔ دوسری طرف عجم یعنی فارس کے لوگوں کو بھی حد سے زیادہ اپنی برتری کا گھمنڈ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حقائق ہمیشہ تلخ ہوتے ہیں، مگر عقیدت کے دائرے سے نکل کر ان حقائق کو قبول کرنا بھی اخلاقی حسن کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ میرے خیال سے ہمیں بھی مسلکی، گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر ایسی اعلیٰ مثالوں کا کم از کم ایک ایک نمونہ اپنی سوچ کے محل میں ضرور محفوظ کر ہی لینا چاہئے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا دور تھا، حکومت کچھ ہی دم کی مہمان تھی، اسی دوران سر زمین حجاز بھی ان کے ہاتھ سے چلی گئی۔

اب سر زمین حجاز بشمول مکہ و مدینہ کے ایک غیر حجازی خاندان کے ہاتھ میں آگئی جنہیں بعد میں نجدی کہہ کر بھی جانا جانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس خاندان نے حکومت برطانیہ کی مدد سے اپنی سلطنت کو عروج دیا اور ایک شاہی نظام کے تحت ایک مخصوص مسلکی نظام متعارف کروایا۔

وقت گزرتا گیا اور وہابی تحریک کے زیر اثر سلطنت سعودیہ بڑھنے پھولنے لگی، تیل کی وافر مقدار نے اور بھی چار چاند لگا دیئے۔ یہ تو تھی عرب کی مختصر کہانی۔

اب آیئے عجم (فارس )کی طرف۔۔۔ اسی دوران ایک خطہ جو ایران کے نام سے مشہور تھا۔ وہاں بھی شاہ ایران کے خلاف بغاوت ہوئی اور فرانس سے آئے ہوئے رہنماء نے اسلامی انقلاب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اقتدار پر گرفت حاصل کر لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسلامی انقلاب بھی ایک مخصوص مسلکی انقلاب کی صورت اختیار کر گیا۔

آہستہ آہستہ مملکت سعودیہ اور مملکت جمہوریہ ایران کا دائرہ کار بڑھنے لگا۔ اور بات اثر و رسوخ کی برتری تک جا پہنچی۔ اسی دوران دو مسلکی گروہ ابھرے۔ گو کہ دونوں گروہ صدیوں سے مختلف علاقوں، ریاستوں میں اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے خوش و خرم آباد تھے۔ مگر اب مسلکی تقسیم ملکوں سے ہوتی ہوئی خاندانوں تک آ پہنچی تھی۔

ایک گروہ کی سر پرستی ایک مسلک کی حامل ریاست کرنے لگی اور دوسرے گروہ کی سر پرستی دوسرے مسلک کی حامل ریاست کرنے لگی۔ میدان سجانے کے لئے جن جگہوں کا انتخاب ہوا ان میں سے ایک پاکستان بھی تھا۔ لہٰذا پراکسی وار کا آغاز ہوا، کہیں ایک مسلک کا خوں بہا اور کہیں دوسرے کا۔ کیا ڈاکٹرز، کیا وکلا، کیا علما و طلبہ غرض ہر طبقے کے خون سے مقاصد کی آبیاری کی گئی۔ اگلے میچ کے لئے فلسطین، لبنان، شام، عراق، افغانستان، بحرین، یمن آئندہ کے لئے گراؤنڈ ثابت ہو رہے ہیں۔ رہی بات پاکستان کی تو ہماری حکومتیں بھی اس پراکسی وار کا بڑے اہتمام و انتظام کے ساتھ حصہ بنتی چلی آئیں ہیں اور بنی ہوئی ہیں۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس کسی بھی دن کا اخبار اٹھا لیجئے آپ کو ضرور کسی نہ کسی فریق کے گماشتوں کے بیانات نظر آ ہی جائیں گے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ نہ ہی مسلکی جنگ ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ جنگ۔۔۔ اگر جنگ ہے تو صرف اور صرف خطے میں بالا دستی کی جنگ ہے۔

مثال کے طور پر آپ فلسطین کو ہی دیکھ لیجئے، جہاں کی مختلف العقیدہ تنظیم کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے۔ یمن میں بھی مختلف عقیدے کے فرقہ کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے، اسی طرح افغان طالبان کے بے در پے ایرانی دورے اور ملاقاتیں بھی زبان زد عام ہیں۔

دوسری طرف مملکت سعودیہ ہے جو کبھی سخت گیر ہم مسلک گروہوں کے خلاف اقدامات کر کے ایک آمر کی مضبوطی کو یقینی بنا چکی ہے، بعض حلقوں کے نزدیک شام میں بھی یہی صورت حال ہے۔

لیکن سوچنے کی باتیں تو یہ ہیں کہ اس کھینچا تانی کے دور میں پاکستان کی نوجوان نسل کہاں کھڑی ہے؟ کیا پاکستانی عوام پراکسی وارز کو سمجھنے بوجھنے اور اپنے معاملات کو خود حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ ایسے وہ کون سے عناصر ہیں جو رکھتے تو پاکستانی شہریت ہیں مگر کام کچھ مخصوص ممالک کے لئے کرتے ہیں؟

کیا ہم مسلکی، نسلی، لسانی تعصبات سے بالاتر ہو کر صرف ایک قوم بن کر دکھانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں؟

افسردگیوں کے اس دور میں خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ یہی چند باتیں آج کل کا نوجوان بھی سوچنے لگا ہے۔ اور صرف سوچنے ہی نہیں لگا بلکہ اپنے تجزیات کی صورت آگاہی کی شکل میں دوسرے لوگوں تک پہنچانے بھی لگا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بے شعوروں کی پھیلائی گئی چنگاریوں کو اس صدی کا باشعور نوجوان مسل کر اک نئی صبح کی بنیاد رکھے گا۔۔۔ نہیں بلکہ رکھ چکا ہے۔ اب صرف ہاتھ سے ہاتھ اور کندھے سے کندھا ملانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم سب نہ تو عرب کی آگ کا ایندھن بنیں اور نہ ہی عجم کی آگ کا ایندھن بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments