فلسطین بمقابلہ کشمیر: پاکستان کے لئے سوچنے کے پہلو


ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے سب سے بڑے داعی ترکی نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدہ کو یو اے ای کی ’منافقت‘ قرار دیا ہے۔ اسی پلیٹ فارم پر قیادت کی خواہش رکھنے والے عمران خان کی وزارت خارجہ نے محتاط انداز میں کہا ہے کہ ’پاکستان نے اس اعلان کو نوٹ کرلیا ہے۔ اس کے خطے کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے‘۔

معلوم وجوہ کی بنا پر پاکستان یا عمران خان متحدہ عرب امارات کے ایک سیاسی و سفارتی اقدام کو ’منافقانہ طرز عمل‘ قرار نہیں دے سکتے۔ حالانکہ یہ بات بھی نوٹ ہونی چاہئے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان 1949 سے سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ گو کہ 2010 میں ہونے والے ایک سانحہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی موجود رہی ہے۔ اس وقت اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے لئے امدادی سامان لے جانے والے ایک ترک بحری جہاز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دس ترک امدادی کارکنوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اسلامی اتحاد کے بارے میں شدید رائے رکھنے اور عرب ملکوں کو فلسطین دشمن حکمت عملی کا ذمہ دار قرار دینے کے باوجود صدر طیب اردوان نے اسرائیل سے تعلقات منقطع نہیں کئے اور نہ ہی تجارتی روابط کو محدود کیا ہے۔

 مشرق وسطیٰ کی سیاست کی اس بھیانک تصویر میں پاکستان کے لئے سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے اور صدر ٹرمپ کے اس اعلان نے اس تصویر کو مزید بدصورت بنا دیا ہے کہ کئی دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ فلسطینی عوام دنیا میں پہلے بھی تنہا تھے اور اب ان کی تنہائی اور بے بسی میں مزید اضافہ ہوگا۔ تاہم سب ممالک اہم فیصلے جذبات کی بجائے زمینی حقائق اور ضرورتوں کے مطابق کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی بہت تاخیر سے وہی اقدام کیا ہے جو ترک حکومت ستر برس پہلے ہی اختیار کرچکی تھی۔ صدر اردوان نے اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے ایک سخت بیان جاری کرکے ضرور فلسطینی عوام اور دنیا کے مختلف خطوں میں آباد جذباتی مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہوں نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے تعلقات بحال ہونے پر یہ اعلان کرنے کا حوصلہ نہیں کیا کہ سفارتی توازن برقرار رکھنے کے لئے ترکی، اسرائیل سے تعلقات توڑ لے گا۔ یقین ہے کہ اگر امریکہ یا اسرائیل کو اس قسم کے ترک فیصلہ کا معمولی سا شبہ بھی ہوتا تو متحدہ عرب امارات کے ساتھ قیام امن کے اعلان کو مؤخر کردیاجاتا۔

 پاکستانی لیڈروں نے ہمیشہ اپنے عوام کو کھوکھلے جذباتی سیاسی نعروں کی بنیاد پر ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔ ملک میں گزشتہ بیس برس کے دوران سامنے آنے والی دہشت گردی کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی، اسی مزاج کی وجہ سے پروان چڑھی ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں سوویٹ افواج کے خلاف جہادی گروہوں کو امریکہ کے تعاون اور مالی امداد سے تیار کیا تھا ۔ امریکہ اپنے سفارتی اہداف حاصل کرنے کے بعد علیحدہ ہوگیا لیکن پاکستان اس انتہا پسندی کا گڑھ بن کر رہ گیا ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس، امریکہ اور دیگر عالمی عوامل کی وجہ سے پاکستان اب دہشت گردی و انتہاپسندی ختم کرنے کا اعلان بھی کرتا ہے اور اس کے لئے گزشتہ دنوں قانون سازی بھی کی گئی ہے ۔لیکن زمینی سطح پر شدت پسندی کے مزاج کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ کشمیر کے حوالے سے مسلسل بھارت کے خلاف جذباتی بیان بازی اور سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کے رجحان نے ملک میں ہیجان اور دہشت کی فضا پیدا کی ہوئی ہے۔

گزشتہ دنوں پشاور کی عدالت میں توہین رسالت کے الزام میں مقدمہ کا سامنا کرنے والے ایک شخص کا قتل، قاتل کے لئے سماجی حلقوں کی تحسین، پنجاب اسمبلی میں ’تحفظ اسلام ‘ نامی قانون کی منظور ی اور گزشتہ روز پشاور میں ہی ایک معمر احمدی باشندے کا افسوسناک قتل ، اسی مزاج اور ذہنی پراگندگی کے مظاہر ہیں۔ بدنصیبی سے ملک کے مذہبی رہنماؤں کی طرح سیاسی لیڈر بھی اس پریشان خیالی اور انتہاپسندی کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ملک میں ارتغرل غازی جیسے ڈرامے کی ریکارڈ مقبولیت اور سرکاری سطح پر اس جذباتی کیفیت کی حوصلہ افزائی سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ملکی قیادت کس حد تک اس خطے کے علاوہ پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے لاتعلق ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے معاملہ کو مسلسل جذباتی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حتی کہ ملک کے وزیر خارجہ اس حد تک چلے گئے کہ ایک نازک سفارتی معاملہ پر انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں سعودی عرب کے خلاف اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرنا ضروری سمجھا۔ اس انٹرویو کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں لیکن حکومت یا وزیر خارجہ کو اس غلطی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کیوں کہ کشمیر کا معاملہ معروضی حالات و حقائق کی بجائے صرف نعروں اور جذبات پر استوار کیا گیا ہے۔ بدنصیبی سے ملک کے ٹھوس سفارتی بیانات بھی کمتر سطح کی اسی جذباتیت سے مملو ہوتے ہیں۔

فلسطین کے حوالے سے عرب ممالک کا بدلتا ہؤا طرز عمل دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عرب ممالک اپنی تمام تر دولت اور سفارتی اثر و رسوخ کے باوجود اسرائیل کو ختم کرنے اور فلسطینیوں کے لئے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسرائیل اس وقت مشرق وسطیٰ اور شاید پورے جنوبی ایشیا میں فوجی لحاظ سے سب سے طاقت ور ملک ہے۔ اسے امریکہ کے علاوہ تمام مالدار ملکوں کی اعانت حاصل ہے۔ عرب ممالک متعدد جنگوں میں اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں کرسکے اور نہ ہی دہائیوں کی دشمنی سے کوئی سہولت حاصل کی جاسکی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران فیکٹر کو اگر بھلا دیا جائے تو بھی عرب قیادت بجا طور سے یہ سمجھنے میں برحق ہے کہ جو کام اسرائیل کو مسترد کرنے اور اس کا بائیکاٹ کرنے سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا ، اس مسئلہ کو دوستی اور مراسم بڑھا کر حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہ کہنا مطلوب نہیں ہے کہ عرب ممالک آزاد فلسطینی ریاست کے بارے میں یکسو ہیں تاہم سرکاری طور پر ان کی یہی پوزیشن ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات بحال ہونے سے اسرائیل پر سفارتی، معاشی اور سیاسی دباؤ میں اضافہ ہوگا اور سفارتی سہولت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اگر مستقبل میں عرب لیڈروں نے ہوشمندی سے کام لیا تو وہ اس اثر و رسوخ سے فلسطینی مسئلہ کابھی کوئی حل تلاش کرسکیں گے۔

پاکستان کو بھی اس صورت حال سے سبق سیکھنا چاہئے۔ بھارت کے بارے میں شدت پسندانہ جذباتی بیانات اور دعوے کبھی کشمیری عوام کو حق خود اختیاری دلوانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ اس کی بجائے اگر پاکستان تجارتی اور معاشی لحاظ سے بھارت اور دنیا کے لئے ایک پرکشش منڈی بن جائے تو نئی دہلی کی ہر حکومت کو کشمیر یا دیگر علاقائی مسائل پر پاکستان کی رائے احترام اور غور سے سننا پڑے گی۔ پاکستان میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ بھارت کے ساتھ دوری کی وجہ وہاں مودی جیسے انتہا پسند لیڈر کا وزیر اعظم بننا ہے اور ہندو انتہا پسند پاکستان کو اس خطے میں اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ بین الملکی تعلقات مذہبی عینک سے نہیں دیکھے جاتے۔ ان میں سفارتی، معاشی، اسٹریجک مفادات قابل غور ہوتے ہیں۔ بھارت ، چین کے مقابلے میں معاشی قوت بننے کی تگ و دو کررہا ہے۔ اس کے لیڈر اور ماہرین بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ پاکستان کو بھی اس کا ادراک کرنا چاہئے۔

کشمیر کے حوالے سے بیان بازی کرتے ہوئے یا پالیسی سازی کے موقع پر قلیل المدت سیاسی مقاصد یا ذاتی مفادات کے نقطہ نظر سے معاملات کو دیکھنے کی بجائے حالت کی وسیع تصویر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کی بے چینی کی سرکاری وجہ یہ ہے کہ وہاں کی آبادی مسلمان ہے۔ پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ کیا وہ ان تمام ممالک کے ساتھ بھی دشمنی کا ویسا ہی تعلق استوار کرے گا جو اس نے بھارت کے ساتھ کیا ہے جہاں مسلمان اقلیتوں کو تعصب و مظالم کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر میانمار میں دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو شدید امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان بے گھر ہوکر بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی ناقص حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن پاکستان اور میانمار کے تعلقات پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہؤا۔ پاکستان میانمار کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والا اہم ملک ہے۔ چین کو پاکستان کا بہترین دوست اور اس دوستی کو مستقبل کی امید سمجھا جاتا ہے ۔ کیا پاکستان کو سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا علم نہیں ہے؟

فلسطین کے معاملہ پر بھی عربوں کی حمایت کی وجہ سے ایک خاص مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے گریز کیا گیا تھا بلکہ ملک میں اسرائیل دشمن فضا بنائی گئی ہے۔ پاکستان میں آنے والی ہر مشکل میں اگر بھارت کا ہاتھ نہیں ہوتا تو اسرائیل سازش کا سرا تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس رویہ کو تبدیل ہونا چاہئے۔ اگر عرب ممالک اسرائیل کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل کررہے ہیں تو پاکستان کیوں اسے تسلیم کرکے اپنے لئے سفارتی اور معاشی سہولت پیدا کرنے کا اہتمام نہیں کرسکتا؟

اسرائیل کے بارے میں متحدہ عرب امارات کے اعلان اور عربوں کے تبدیل ہوتے رویہ کی روشنی میں پاکستان کو کشمیر کے سوال اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہئے۔ کشمیری آزادی کی جنگ خود احسن طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔

پاکستان اسی طرح ان کی مدد کرسکتا ہے جس طرح عرب ممالک فلسطینیوں کو سہولت فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ سفارتی فیصلوں میں دیر کرنے سے اہم قومی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بھی یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali