لاہور کے تکیے


نانی کی آواز آئی جاؤ، اپنے نانا کو دیکھو وہ تکیے میں بیٹھے چوسر کھیل رہے ہوں گے انہیں کہو گھر آکر کھانا کھالیں۔ یہ 1977 کے مارشل لاء کے بعد کا دور تھا، گرمی چھٹیوں میں ہم ننھیال جاتے تو میرا پسندیدہ مشغلہ تکیے جاکر بڑے بوڑھوں کو شطرنج، چوسر کھیلتے اور آپس میں نوک جھونک کرتے دیکھنا ہوتا تھا۔ وہ اپنے کھیل کے دوران بہت سے ماضی کے واقعات دہراتے اور حکمت کی باتیں بھی کرتے جس میں مجھے زیادہ دلچسپی ہوتی تھی۔ لیکن میری نانی اور امی کو بچوں کا تکیے میں زیادہ دیر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا تھا۔

تکیے لاہور کی قدیم روایت کا حصہ تھے، جن کے وسیع احاطے میں نیم اور برگد کے درختوں کے نیچے بیٹھے محلے کے بزرگ وقت گزاری کے ساتھ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کرتے۔ پاس ہی بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ اسی احاطے میں کسی بزرگ کا مزار ہوتا اور ایک جانب ایک اکھاڑہ بھی ہوتا جہاں نوجوان جسمانی ورزش کرنے اور پہلوان کشتی کا فن سیکھ رہے ہوتے۔

میں نانی کی بات سنتے ہی گھر سے نکلا اور تکیے چلا گیا، جہاں نانا اپنے دوستوں کے ساتھ چوسر کھیل رہے تھے، یہ سب ستر اور اسی کی دہائی کی عمروں کو پہنچ گئے تھے لیکن ان کی نوک جھوک کبھی کبھی بالکل بچوں کی طرح ہوتی تھی۔

نانا نے میری بات سنی ان سنی کردی۔ دوسرے ساتھی نے الٹا مخاطب کیا جناب گھر سے بلاوا آ گیا ہے۔ اب جانا ہوگا۔

وہ بولے۔ بھائی فارغ بندے ہیں، کسی بھی وقت چلے جائیں گے، ہمارے بغیر کون سے کام رکے ہوئے ہیں۔ ہم جہاں بیٹھے ہیں اس سے زیادہ گوشہ عافیت تو گھر میں بھی نہیں۔

دوست بولا۔ یہاں جتنی آزادی ہے وہ کہیں نہیں۔ ہم کھیلتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں، حقہ پیتے ہیں۔ یہاں آنے والے بچوں کو ڈانٹ لیتے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں کسے یہ نصیب ہوتا ہے۔

میں کچھ دیر ان کا کھیل سمجھنے کی کوشش کرتا رہا پھر احاطے میں موجود ایک محلہ دار لڑکے کے ساتھ جھولا جھولنے میں مصروف ہوگیا۔ کسی منچلے نے اعلان کیا کہ آج رات تکیے میں قوالی کی محفل ہے۔ اگلے دن وہاں نانا کے ساتھ بیٹھے میں نے پوچھا کہ اس جگہ کو تکیہ کیوں کہتے ہیں۔

نانا بولے۔ ہم آرام کے لیے تکیہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ مقام بھی اپنی مصروفیت سے نکل کر استراحت کے لیے بنایا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور نہ صرف باغوں کا بلکہ تکیوں کا شہر بھی تھا۔ تکیوں کی تاریخ کوئی ایک ہزار سال پرانی ہے۔ لاہور شہر جب چار دیواری کے اندر آباد تھا تو شام ڈھلتے ہی داخلی دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔ اس کے بعد باہر سے آنے والے مسافر داخلی دروازوں کے ساتھ بنے وسیع سرسبز احاطے تکیہ میں قیام کرتے اور صبح دروازہ کھلنے پر شہر میں داخل ہوتے تھے، شہر اور ملحقہ علاقوں کے بچے، بزرگ اور نوجوان تکیوں کو فرصت کے لمحات گزارنے کے لیے استعمال کرتے۔

اس کے بعد جب شہر میں وسعت آنے لگی تو مختلف علاقوں میں ایسے ہی درجنوں تکیے بن گئے جہاں بعض روایات کے مطابق برادریوں کے تنازعات طے کرنے کے لیے پنچائتیں بھی لگتی تھیں۔ ہم بھی یہاں بعض اوقات اپنے مسئلے مسائل لے کر بیٹھتے ہیں،

نانانے بتایا کہ چیمبر لین روڈ پر تکیہ مراثیاں اٹھارہ سو ساٹھ سے بہت پہلے قائم ہوا تھا اس وقت یہ تکیہ پورے ہندوستان میں موسیقی کی یونیورسٹی سمجھا جاتا تھا۔ برصغیر کا کوئی بھی گلوکار اور مختلف ساز بجانے والے جب تک یہاں پرفارم نہیں کرتے تھے اس وقت تک انھیں مکمل سند نہیں ملتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس تکیے میں فتح علی خان، علی بخش خان، غلام علی خان، اور چھوٹے غلام علی خان جیسے گلوگاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ پٹیالہ گھرانے کے استاد عاشق علی خان نے اپنے آخری فن کا مظاہرہ بھی اسی تکیے میں کیا اور انھیں دفن بھی یہیں کیا گیا۔ اس تکیہ میں اکھاڑہ، کنواں وغیرہ ہوا کرتا تھا اور اکثر اوقات موسیقی کی محفل سجتی تھی جسے سننے کے لیے لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں کلاسیکل موسیقی سننے کا رجحان کم ہوتا گیا تو ان کی نسل بھی اس کام سے دور ہوتی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ جو تکیہ ویران ہونا شروع ہوا تو معاشی مسائل حل کرنے کے لیے کچھ جگہ پر دکانیں وغیرہ بنا دی گئیں۔

شاہی قلعہ کے عقب میں تکیہ کھائی والا ہے اس میں ایک بزرگ کا مزار بھی موجود ہے۔ اس تکیہ کی تاریخ نو سال سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ اس میں کئی تبدیلیاں آئیں تاہم اکھاڑہ اب بھی قائم ہے۔ ہم بچپن میں یہاں محفل موسیقی سننے جایا کرتے، یہاں چوسر اور شطرنج وغیرہ کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔

نانا نے بتایا کہ یہاں ہمارے تکیے میں بھی مقابلے ہوتے تھے، لیکن اب نہ وہ لوگ رہے اور نہ کھیلنے والے۔ مصروفیت اور افراتفری کے اس دور میں محلے کے چند لوگ آتے ہیں لیکن اب یہاں ماضی کی رونقیں نہیں رہی ہیں۔

Bade Ghulam Ali Khan

انھوں نے بتایا کہ بہت سارے تکیوں پر لوگوں نے قبضہ کرکے بڑے بڑے پلازے تعمیر کرلیے یا وہاں دکانیں بن چکی ہیں لیکن کسی نے اس المیے کی طرف دھیان نہیں دیا اور تکیہ جو لاہور کی ثقافت کا اہم حصہ تھا آہستہ آہستہ ختم ہوتا نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اس تکیہ کی کافی جگہ پر دکانیں تعمیر ہوچکی ہیں لیکن اس کے باجود انھوں نے اکھاڑے کو برقرار رکھا ہوا ہے کیونکہ حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے پہلے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایسی جگہوں کو ختم ہونے سے بچائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تکیوں کی وجہ سے کلاسیکل موسیقی کے پروگرامز منعقد ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان جگہوں سے نامور گلوکار اور موسیقار پیدا ہوئے۔

نانا نے بتایا کہ اب تو لوگوں میں فکری آسودگی اور آپس میں مل بیٹھنے کا سلیقہ نہیں رہا ہے۔ جس سے معاشرے میں تخلیقی عمل رک چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب آرٹ کی پروموشن رک جاتی ہے تو ان لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے جو آرٹ کے دشمن ہوتے ہیں اور سماج میں منفی سرگرمیوں کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا نانا اب یہ تکیہ ویران پڑا ہوتا ہے، اب زیادہ گہما گہمی نہیں ہوتی۔

نانا بولے، ملک میں جاری افراتفری، بے چینی اور شدت پسندی کی وجہ تفریح کے ایسے مقامات کا ختم ہوجانا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی روایت کا زوال پذیر ہونا بھی ہے۔ یہ مقامات ذاتی معاملات سے لے کر اجتماعی مسائل کے حل اور لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی اور مذہبی انتہا پسندی روکنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہ باتیں چالیس برس پرانی ہیں، اس وقت بھی سماج میں لوگوں کے درمیان دوریاں بڑھنا شروع ہوگئی تھیں، لیکن چار دہائیاں گزرنے کے بعد ایسے مقامات اکٹھ، اور وہ سوچ رکھنے والے لوگ خصوصاً بزرگ ڈھونڈنے ہوں گے، مصروفیات بھی بڑھ گئیں، ترجیحات بھی بدل گئیں، اب سکون اور آرام کی تلاش کے مقام کچھ اور ہوگئے، ان تکیوں کے نشان بھی مٹتے جا رہے ہیں، اب تو شاید انہیں تاریخ کے طور پر محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ آج بھی نانا جیسے بزرگ یاد آ جاتے ہیں، جنہوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا اور بعد کے دنوں میں بھی سماج کی فلاح وبہبود میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوئے، اب شاید چاہتے ہوئے بھی کچھ کرنا ناممکن لگتا ہے۔ یہ تکیے اور بزرگ محض یادگاریں اور تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar