گھر تو آخر اپنا ہے


چودہ اگست پاکستان میں ہر سال یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن یقیناً خوشیاں منائی جانا چاہییں، لیکن چند زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر نہیں۔ کشور مصطفیٰ کا بلاگ۔

چرند پرند، نباتات، حیوانات، قدرت کی تمام نشانیوں کو غور سے دیکھا جائے تو ان میں بہت سی قدریں مشترک نظر آتی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین قدر یہ ہے کہ تمام جاندار اپنی اور اپنی آئندہ نسل کی بقا کی جدوجہد میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

مجھے پالتو جانوروں سے بہت محبت ہے۔ خاص طور سے چھوٹے اور چار دیواری کے اندر خود کو محفوظ محسوس کرنے والے جانوروں سے۔ بہت سے لوگ پرندے گھروں میں رکھتے ہیں۔ یہ یقیناً خوبصورت لگتے ہیں تاہم میں اڑنے والے جانوروں کو قید کر کے اپنی تفریح کا سامان کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ جنہیں خالق نے آزاد اڑنے کے لیے پیدا کیا ہے، انہیں انسان پابند قفس کیسے کر سکتا ہے؟ میں نے چڑیاؤں کو کبھی پنجرے میں بند نہیں کیا، نہ ہی انہیں گھر میں بطور پالتو جانور تزئین وآرائش کا سامان سمجھا۔

لیکن مجھے آسمانوں کی طرف جست لگانے والے چھوٹے چھوٹے پرندے بہت خوبصورت، دلچسپ اور متاثرکن لگتے ہیں۔ پرندوں کے علاوہ مجھے پھولوں کا بھی بہت شوق ہے۔ خاص طور سے موسمی پھول جو مختصر وقت کے لیے زندہ رہتے ہیں مگر انسانی جمالیاتی حس کو زندہ رکھتے ہیں، اپنے رنگوں اور مسحورکن خوشبوؤں سے۔ میں ہر سال بہار کے موسم میں اپنی با لکونی میں رنگ برنگے پھول لگاتی ہوں۔ جرمنی میں اس کا بہت رواج ہے اور مارچ سے لے کر موسم خزاں تک ہر گھر کے آنگن، بالکونی یا لان میں رنگوں کی بہار رہتی ہے۔

گھر کے لان یا بالکونی میں لگے پھولوں کے پودوں کے گملے چند پرندوں کی غیر معمولی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس بات کا احساس اس بار مجھے اس وقت ہوا جب میں نے اپنے گھر کی بالکونی میں موسمی پھولوں اور بیروں والے پودے لگائے۔ ان پودوں کی نشو ونما کے لیے مختلف اقسام کی کھاد اور مٹی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ جرمنی میں چند خاص پودوں کے لیے جو کھاد اور مٹی استعمال کی جاتی ہے، اسے ’مٹر ایرڈے‘ کہتے ہیں، جس کے لفظی معانی ’مادر زمین‘ بنتے ہیں۔ بڑے اہتمام سے پھولوں اور بیروں والے پودے گملوں میں لگا کر، انہیں اپنی بالکونی میں سجا کر، میں اپنے ڈائننگ روم کی شیشے کی بڑی کھڑکیوں اور دروازے سے باہر ان کا نظارہ کرتی ہوں اور قدرت کے اس حسین منظر سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔

ایک روز جب میں صبح سویرے بالکونی میں گئی تو دل دھک سے ہو کر رہ گیا۔ پھولوں کے گملے آدھے خالی لگ رہے تھے، ان کے اندر کی مٹی اور کھاد نیچے زمین پر پڑی تھیں اور پھولوں کی پتیاں بکھری پڑی تھیں، جو ٹوٹنے کے بعد بھی خوبصورت مگر افسردہ نظر آ رہی تھیں۔ میرا پہلا رد عمل یہ تھا، ”حد ہے اب جرمنی میں بھی پھولوں کے چور ہونے لگے۔ یقیناً کسی نے باہر سے ان خوبصورت پودوں کو اکھاڑ کر انہیں چرانے کی کوشش کی ہے۔“ دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی، بڑا غصہ آیا اور دکھ ہوا۔

لیکن میں نے پھر سے گملوں کو کھاد اور مٹی سے بھرا اور بازار سے پھولوں والے نئے پودے لا کر لگا دیے۔ اس بار میں نے سوچا کہ محتاط رہوں گی اور نظر رکھوں گی کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ دوسری صبح پھر وہی منظر دیکھنے کو ملا کہ گملے آدھے خالی، زمین پر مٹی اور کھاد کے ساتھ ساتھ پھولوں کی پتیاں۔ دل میں سوچا کہ اتنا ڈھیٹ چور آخر ہے کون؟ اس بار میں پھولوں والے نئے پودے نہ لائی لیکن گملوں کو دوبارہ کھاد اور مٹی سے بھر کر چھوڑ دیا اور سوچا کہ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے۔

تیسرے روز میں صبح سویرے بالکونی میں نہ گئی۔ بس ڈائننگ روم کے شیشے کے دروازے سے ہی باہر دیکھ رہی تھی کہ ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا جس نے پھول دار پودوں کے ضیاع کے احساس کو بھلا کر میرے اندر ایک ناقابل بیان احساس جگا دیا۔ میرے سامنے سیاہ رنگ کا ایک خوبصورت پرندہ، جس کی چونچ زرد رنگ کی تھی، اڑتا ہوا آیا اور پھولوں کے گملے سے اپنی چونچ میں تیزی سے کچھ جمع کرنے لگا۔ جیسے ہی اس کی چونچ میں مزید کچھ اٹھانے کی گنجائش نہ بچی، وہ تیزی سے اڑا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

ابھی میں اس منظر کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ وہی سیاہ پرندہ پھر اڑتا ہوا آیا اور اسی گملے سے اپنی چونچ میں پھر کچھ جمع کرنے لگا۔ اس بار میں نے غور سے جائزہ لیا کہ یہ آخر جمع کیا کر رہا ہے؟ مجھے اس کی چونچ میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، کچھ کھاد اور گھاس پھوس نظر آئے۔ وہ پھر اڑا، اسی سمت جس طرف وہ پہلے بھی اڑتا ہوا دکھائی دیا تھا۔ میرا تجسس بہت بڑھ گیا تھا۔ میں اپنے گھر سے نکلی اور باہر جا کر دیکھنے لگی کہ آخر وہ پرندہ اتنی جلدی گیا کہاں ہے اور آیا وہ پھر لوٹے گا؟ میں نے بغور دیکھا کہ میرے گھر کی بالکونی سے کوئی 20 قدم آگے سڑک کی طرف ایک درخت ہے، جہاں وہ یہ سب کچھ جمع کر رہا ہے۔

میں اس چھوٹے سے جاندار، ایک ننھے سے پرندے کی اس جدوجہد کو دیکھ کر ابھی دم بخود تھی اور سوچ رہی تھی کہ ذرا اور قریب جا کر اس درخت کی ٹہنیوں میں جھانک کر دیکھوں کہ وہ پرندہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس دوران اس پرندے نے بلامبالغہ پانچ چکر لگائے اور چونچ میں جو کچھ جمع کیا ہوتا، اسے لاکر درخت میں کہیں چھپا دیتا۔ میں نے دبے پاؤں جاکر اس درخت کی ٹہنیوں میں جھانکا، تو مجھے ایک چھوٹا سا گھونسلہ نظر آیا۔

میں اس چڑیا کی تعمیراتی صلاحیتوں پر حیران سے زیادہ ان سے متاثر تھی۔ خود کلامی کرتی جب میں گھر لوٹ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ وہی چڑیا اپنے ایک ساتھی کے ساتھ میری بالکونی میں پودوں کے گملوں سے اپنی چونچ میں کچھ بھر رہی ہے۔ دونوں کچھ چوکنا نظر آ رہے تھے۔ چڑیا شاید اپنے گھونسلے کی تعمیر کے لیے سامان اکٹھا کرتے کرتے تھک گئی تھی اور اس نے اس مرتبہ اپنے ساتھی کو بھی ساتھ ملا لیا تھا اور دونوں مل کر اپنے اس آخری چکر میں ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ چیزیں جمع کر لینا چاہتے تھے۔

انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ میں ان کا تعاقب کر رہی تھی۔ بس اس کے بعد وہ چڑیا میرے گھر کی بالکونی کی طرف نہ آئی اور نہ ہی گملوں سے کچھ غائب ہوا۔ اگلے روز میں نے جاکر درخت کو دوبارہ غور سے دیکھا تو منظر ناقابل فراموش تھا۔ وہ چڑیا گھونسلے کی تعمیر مکمل کر چکی تھی اور اس کے اندر بیٹھ کر شاید سوچ رہی تھی کہ اب اس گھر کی حفاظت کیسے کی جائے؟

چڑیا کے گھونسلے میں چھوٹی چھوٹی لکڑیوں، ٹہنیوں اور شاخوں کے بہت سے ننھے ننھے ٹکڑے بھی نظر آ رہے تھے۔ میرے ذہن میں اپنے بچپن کا ایک منظر گھوم گیا۔ میں دوسری جماعت میں تھی، میرے بڑے بہن بھائی اور ہمارے والدین ہر سال کی طرح 14 اگست کو ہمارا گھر پاکستان کے سبز سفید پرچم جیسی چاند تارے والی جھنڈیوں سے سجا رہے تھے۔ میرے ایک بھائی کو ماچس کی ڈبیائیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس نے ہمارے والد سے پوچھا کہ قیام پاکستان کے بعد جب وہ اپنے والد کے ساتھ پاکستان آئے تھے، تو اس وقت انہیں کس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا؟

میرے والد نے جواب میں کہا، ”جانتے ہو، یہ ماچس کی ڈبیائیں جو تم جمع کرتے ہو، یہ قیام پاکستان کے بعد کتنی اہم تھیں؟ اس وقت پاکستان کا ریاستی خزانہ خالی تھا، ہمارے والدین تنکا تنکا جمع کر کے اس گھر کی تعمیر کے لیے تمام صعوبتیں اٹھا رہے تھے۔ اس ماچس کی ڈبیا کو بھی دفتروں میں اہم چیزوں کے اندراج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ کاغذ خریدنے کے لیے کافی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ دفاتر میں لوگ فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے اور ماچس کی ڈبیاؤں پر نوٹس لکھا کرتے تھے۔ پاکستان ایسے بنا تھا۔“ میرے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے، ”جو گھر تنکا تنکا جمع کر کے بنایا جائے، وہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت نہ کی جائے تو وہ چڑیا کے گھونسلے کی طرح بکھر جاتا ہے۔“

آج 14 اگست 2020 ء کو پاکستانی قوم یوم آزادی منا رہی ہے۔ جگہ جگہ پاکستان کے پرچم کی شکل کے کیک کاٹے جا رہے ہیں۔ عوام کے جذبات کی قدر اپنی جگہ، لیکن کیا یہ وہی پاکستان ہے جسے تنکا تنکا کر کے تعمیر کیا گیا تھا؟ کیا یہ گھر محفوظ ہے؟ کیا اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے بے لوث اور مخلص ہیں؟ کیا ہمارے بزرگوں کی اس گھونسلے کو بنانے کے لیے دی گئی قربانیوں کا ان کی بعد میں آنے والی نسلوں کو کوئی پھل ملا؟ افسوس کہ ان جملہ سوالات کا جواب یہی تین لفظ ہیں : ”ہرگز نہیں۔“

پاکستانی پرچم کی شکل کے کیک کاٹنے والوں سے آج یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ اس ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف متحد ہو کر عملاً ایک قوم بن کر لڑنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو انہیں یہی کیک کاٹتے وقت ایک لمحے کے لیے سوچنا چاہیے کہ اس گھر کی حفاظت اور ترقی کی ذمہ داری کس حد تک ان پر بھی عائد ہوتی ہے؟ صرف کوئی سبز سفید اور چاند ستارے والا کیک کاٹ کر جو خوشی منائی جائے گی، وہ کتنی پائیدار ہو گی؟

بشکریہ ڈی ڈبلیو

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa