جولیس سیزر کی آخری رسومات


ایمرسن نے کہا تھا، ”جب آپ کسی بادشاہ پر حملہ آور ہوں، تو اسے زندہ مت چھوڑیں“

بروٹس اور اس کے حواری سینیٹروں کی سازش کامیاب ہو چکی تھی۔ ایک بہادر اور جری جرنیل جس کی لازوال فتوحات پر آج بھی تاریخ کے اوراق فخر کرتے ہیں وہ ایک بزدلانہ سازش کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔

15 مارچ 44 قبل مسیح کے دن جولیس سیزر قتل ہو چکا تھا لیکن ابھی اس کی تدفین باقی تھی۔ روم کے طاقتور حلقوں میں جوش و خروش تھا تو شہر کے عام طبقے میں اضطراب چھلک رہا تھا۔ سوگوار ماحول کسی بھی لمحے سخت کشیدگی میں تبدیل ہو سکتا تھا۔

ایک بہادر اور باوقار حکمران کا لاشہ اس کی جائے قتل پر لاوارث پڑا تھا۔ لوگوں کی توجہ اس کے جسم سے زیادہ اس کے قتل سے جڑے نتائج پر مبذول ہو گئی تھی۔ اس کی لاش پر اس کے تین وفادار غلام ہی رہ گئے جنہوں نے اس کی میت کو کندھا دے کر اس کے گھر ”ڈومس پبلیکا“ تک پہنچایا اور س کی لاش کو اس کی بدقسمت بیوی کیلپرینا کے سپرد کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان غلاموں نے اس کے جسم پر لگے زخم بھی گنے اور ان کی تعداد تیئیس بتائی ہے۔

اس سے اگلے روز بروٹس اور اس کے ساتھیوں نے مجلس عاملہ بلائی اور اس سے خطاب میں لوگوں کو سیزر کے قتل پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی، لوگوں نے اس کا خطاب خاموشی سے سنا اور اٹھ کر چلے گئے۔

اسی دوران سینیٹ نے قانون سازی کرتے ہوئے سازشی قاتلوں کو ہر طرح کی سزا سے استثناء دے دیا۔ اور ساتھ ہی لوگوں کے اضطراب کو کم کرنے کے لیے سیزر کی آخری رسومات کو اس کے شایان شان منانے کی اجازت دے دی۔ اور اس کی وصیت کو بھی اس کے سسر کی تجویز پر عام لوگوں کے سامنے پڑھنے کی اجازت دے دی گئی، جو اسی طرح پڑھی بھی گئی۔

سالانہ فوجی پریڈ کے لیے مختص گراؤنڈ ”فیلڈ آف مارس“ میں اس کی آخری رسومات کی تیاریاں کی گئیں اور اس کے ساتھی مارک انٹونی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔

فیلڈ آف مارس میں اس کی میت رکھنے کے لیے سونے اور جواہرات سے مزین بستر بنایا گیا۔ اس کے اوپر مندر کی شکل کا شاندار شامیانہ نصب کیا گیا۔ اس کی میت کو جلانے کے بھی انتظامات وہیں کیے گئے۔

اس کا جنازہ اس کے گھر ڈومس پبلیکا سے اس کی بیوی کیلپرینا کی آہوں اور سسکیوں میں فیلڈ آف مارس کی طرف روانہ ہوا۔ روم کے عوام اپنے محبوب قائد کو الوداع کہنے کثیر تعداد میں جنازے میں شریک ہوئے۔ اس کے جنازے پر مارک انٹونی نے پرجوش اور جذباتی خطاب کیا اور روم کے لیے سیزر کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جس سے عوام میں جوش کی نئی لہر دوڑ گئی۔

جب سیزر کی میت شامیانے میں پہنچ چکی تو دو مشعل بردار جوانوں نے اس کو آگ لگائی اور اس آگ پر لکڑیوں کے گٹھے گرائے گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے قریبی سرکاری عمارتوں کا فرنیچر آگ میں پھینکنا شروع کر دیا۔

سیزر سے عقیدت میں ڈوبے فوجی جوانوں نے اپنے بھالے اور نیزے آگ کے سپرد کر دیے تو موسیقاروں نے اپنے آلات موسیقی آگ کی زینت بنا دیے، عورتوں نے اپنا زیور آگ کی نذر کر دیا اور اپنے بچوں کی پوشاکیں اتار کر آگ میں جھونک دیں۔

جوش کا یہ عالم تھا کہ جس کے ہاتھ جو بھی چیز لگی آگ میں پھنکنا شروع کر دی جس سے آگ مزید توانا ہو کر بھڑکتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ آگ نے میدان سے متصلہ عمارتوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے یہ آگ بلند ہوتی گئی لوگوں کا جوش و خروش بھی بڑھتا گیا۔

لوگوں نے اس آگ سے مشعلیں روشن کی اور جذبہ انتقام میں بروٹس اور کاسئیس کے گھروں کو رخ کر لیا جو پہلے ہی کہیں ڈر کے پناہ لے چکے تھے۔

اس مشعل برادر ہجوم کو اصل قاتل نہ ملے تو انہوں نے لاسئیس بلینئیس نامی شخص کا گھر جلا دیا جس پر انہیں سازشیوں کا ساتھی ہونے کا شبہ تھا۔ انہوں نے سیزر کے ایک اور دشمن ”سینا“ کا بھی سر تن سے جدا کر دیا اور اس کے سر کو روم کی گلیوں میں گھمایا۔

اس ساری صورتحال میں فوجیوں نے ہجوم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، تمام معاملات عوام نے اپنے ہاتھ میں لے لیے اور اپنے محسن کو اسی عزت اور تکریم سے رخصت کیا جس کا وہ حقدار تھا۔

روم کے عوام نے تاریخ کو گواہ بنا کر بتایا کہ جب کسی زندہ قوم کے ہیرو پر حملہ ہوتا ہے تو وہ اسے پوری قوم پہ حملہ تصور کرتی ہے۔ قاتل سیزر کو مار چکے تھے مگر ”سیزرزم“ کے جذبے کو شکست دینا انہیں تا مرگ نصیب نہ ہوا۔

اسی لیے عمر خیام نے کہا تھا کہ، ”جہاں جولیس سیزر کا خون گرا، وہاں آج بھی سرخ رنگ کے پھول کھلتے ہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).