ایک امتحانی پرچہ طالب علم کا مستقبل طے کرتا ہے


زمانہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ نصاب اور تدریسی طریقہ کار میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اسکول کے اساتذہ کی امتحانی پرچے کی تیاری میں انقلابی بنیا دوں پر تربیت ہونی چاہیے۔ کتنے استاد ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا طریقۂ تدریس اور امتحانی پرچہ طلباء کے اخلاق، نفسیات، کردار اور اس کے مستقبل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

عام طور پر سخت گیر محنتی ٹیچر جس کی جماعت میں قبرستان کی سی خاموشی پائی جائے اسکول مینیجمنٹ کی نظر میں مثالی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے اکثر اسکولوں میں ایسے ہی مثالی اساتذہ پائے جاتے ہیں، حقیقت میں ایسے اساتذہ طلبا کے سوالات سے ڈرتے ہیں اور انہیں اپنی شفقت سے نظم میں رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ استاد کے اعصاب مضبوط ہونے چاہئیں۔ طلبا و طالبات کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کے لیے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے میں انہیں نظم و ضبط میں لانا ذرا صبر آزما ضرور ہے لیکن مشکل نہیں۔

اسلامیات، تاریخ، اردو، انگلش اور سوشل سائنس کے مضامین میں خاص طور پر استاد کو کمرۂ جماعت میں بھی مسلسل بولتے رہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ استاد کے بجائے طلباء کی جماعت میں مرکزی حیثیت ہونی چاہیے۔ طلباء کو کسی موضوع پر اظہار خیال کے لیے اکسائیں طلبا کی آپس میں بحث کے دوران آپ بیچ میں کہیں کہیں انہیں متعلقہ معلومات دیتے رہیں۔ واقعات کی تواریخ کا حوالہ تو دیں لیکن اسے اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔

جماعت میں آپ طلبا کو شرکت کا جتنا موقع دیتے ہیں اتنی ہی وہ دلچسپی لیتے ہیں۔ درسی کتاب کا موضوع جتنا بھی خشک ہو طلبا کی موضوع پر ان کی براہ راست شرکت اور بحث اسے دلچسپ بنا دے گی۔ ایک استاد کے، علم تجربے اور عمر کا بچے کی محنت، صلاحیت، اور علم سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ اپنا علم بچے کی زبان میں اس کے لیول پر آ کر اس کے اندر منتقل کرے۔

اس سب کے بعد آتا ہے امتحانی پرچے کی تیاری کا مرحلہ، استاد کے لیے گویا انتقام لینے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ آخرت میں نامہ ء اعمال کے برتے پر دوزخ کا زبانی کلامی خوف منظر سے ہٹتے ہی غائب ہو جاتا ہے لیکن لڑکپن کی عمر میں سال میں دو یا تین امتحانات کا مرحلہ طلبا ء کے مزاج، اخلاق، نفسیات اور صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ کیوں کہ استاد منکر نکیر بنا منظر کے سامنے رہتا ہے۔ کسی بھی طالب علم کی زندگی اور اس کے گھر کے ماحول میں امتحانی پرچہ کیسا طوفان برپا کر سکتا ہے، اس کا اندازہ وہ کھڑوس استاد نہیں لگا سکتا جو طلبا کے لیے اپنا دل محبت آمیز اور گداز کرنے کے بجائے انتقامی جذبے سے پرچہ بنا تا ہے، کہ سارا سال نہیں پڑھا، کلاس میں مستیاں کیں اب دیکھنا انہیں کیسا مزا چکھاتی /چکھاتا ہوں۔

یہ محض امتحانی پرچہ نہیں، یہ بچے کا مستقبل ہے۔ اس سے بچے کی خوشیاں اور زندگی جڑی ہے۔ کسی بھی شخص یا واقعے کی شہرت، اس کی صلاحیت، کردار اور کارناموں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ امتحانی پرچے میں بچے کی یاداشت کا امتحان لینے کے لیے تواریخ، کرداروں کے خاندان کے افراد کے اصل نام، رشتے داروں مختلف ناموں اور رشتوں کی تفصیلات پوچھ کر بچے کو امتحانی مرکز میں بوکھلا نے کی ضرورت نہیں۔ اگر طالب علم ان احمقانہ سوالات کے جوابات نہ دے پایا تو وہ باقی سارے پیپر میں بھی تذبذب کا شکار رہ کر اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔

امتحانی پرچہ بناتے وقت طلباء کی رٹنے کی صلاحیت کو آزمانے کے بجائے سوالات اس نوعیت کے ہوں جن میں طلباء کو ان کی رائے دینے کا موقع ملے۔ ان کے پڑھنے، لکھنے، تخلیقی اور سمجھنے کی صلاحیت پر مشتمل سوالات رکھیں جائیں تو طالب علم اپنی کسی نہ کسی صلاحیت کو بروئے کا ر لا کر پاسنگ مارکس لے کر ناصرف فیل ہونے کے نفسیاتی بحران سے بچ سکتا ہے بل کہ ابتدا سے ہی اس کے اندر سوچ بچار اور اظہار کی قوت پیدا ہوگی۔

اب بات کرتے ہیں، برانڈڈ اسکولز یا بورڈ کے امتحانات کی یہاں پر کیوں کہ پرچے یونی فائڈ ہوتے ہیں اس لیے استاد بڑا بے بس ہوتا ہے۔ اپنے طالب علم کی امتحانات میں کامیابی فکر میں وہ سارا سلیبس طلبا کے حلق میں انڈیل دینا چا ہتا ہے۔ اسے طلبا ء سے زیادہ امتحانات کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اس کا اضطراب اور پریشانی دوران تدریس طلبا ء کے اندر سرایت کر جاتی ہے۔

ناسمجھ والدین نے اپنے بچے کے بہتر نتیجے کی خواہش میں منہ مانگی فیس والا ٹیوٹر رکھتے ہیں۔ امتحانات کے دوران، ان کا کردار موت کے فرشتے کا سا ہو تا ہے۔ جو بچے کو ذرا ریلیکس دیکھ کر اسے نتیجے سے ڈراتے رہتے ہیں۔ اپنی ساری تفریحات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مصروفیت صرف بچے کی پڑھائی پر مرکوز رکھتے ہیں۔ رات بھر جاگنے اور رٹا لگانے کے باوجود بچے اور والدین کی ساری قربانی اور محنت ایک بوگس امتحانی پرچہ ملیا میٹ کر دیتا ہے، اگر امتحانی پرچہ تسلی بخش نہ ہو سکے تو باقی پرچے، نتائج کے خوف میں گزرتے ہیں۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جس کا ڈر ہوتا ہے۔ والدین اپنا غصہ بچے پر نکالتے ہیں۔ اور اسے اگلی کلاس میں بھیجنے کے لیے ہیڈ مسٹریس کی منتیں کرتے ہیں۔ طالب علم الگ شرمندگی کا شکار کہ اس نے فیل ہو کر کس طرح والدین کو میڈم کے آگے گڑگڑانے پر مجبور کیا۔

اساتذہ امتحان میں ناکام ہونے والے طلباء کو اگلی کلاس میں براجمان دیکھ کر سیخ پا ہو جاتے ہیں اسکول کی پالیسی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر جماعت میں جا کر اس بچے کی تمام بچوں کے سامنے بری طرح تضحیک کرتے ہیں ان کا خیال ہو تا ہے کہ اب پھر یہ ان کے لیے سارا سال درد سر بنا رہے گا۔ لیکن اس سب میں مجرمانہ کردار اسکول کی پالیسیز اور استاد کے امتحانی پرچے کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments