ڈاکٹر محمد حمید الله


ڈاکٹر حمید اللہ 19۔ فروری، 1908 ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ 8 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ والد کا نام محمد خلیل اللہ تھا جو خود بھی ایک ادیب اور عالم تھے۔ حمید اللہ نے گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور 1924 ء میں مولوی کامل کا درجہ مکمل کیا۔

1924 ء میں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا اور 1930 میں اسلام، علم قانون، ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے اسلامی قوانین بین الاقوامی میں ڈاکٹریٹ کے لیے آپ کو فیلوشپ بھی پیش کی گئی۔

ڈاکٹر حمید اللہ جب جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں زیر تعلیم تھے۔ ایک روز خلاف معمول مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ زائد ہوگیا لیکن وہ ابھی تک کمرہ جماعت میں نہیں پہنچے تھے، استاد اس دوران بار بار دروازے کی طرف دیکھتا رہا کہ حمید اللہ آئے اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ بات یہ نہیں تھی کہ کمرہ جماعت میں کوئی طالب علم موجود نہیں تھا، بلکہ کمرہ جماعت میں قریباًساٹھ، باسٹھ طالب علم موجود تھے لیکن ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا۔

وہ اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے ان میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا کہ کافی وقت ہو گیا ہے تدریس کا عمل شروع کیا جائے۔ نہ ہی ان پتھروں کواحساس تھا کہ استاد کس اضطرابی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ گزرتے لمحوں کے ساتھ استاد کا اضطراب مزید بڑھتا جا رہا تھا، کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حمید اللہ کبھی ایک منٹ بھی تاخیر سے آیا ہو اللہ خیر کرے، پتہ نہیں آج ایسا کیا ہو گیا ہے؟ آخر دروازے کی طرف پھر نظر گئی تو حمید اللہ سامنے کھڑا تھا۔

استاد نے تعجب سے پوچھا حمید اللہ آپ کہاں تھے؟ یاد رہے کہ اس میں ڈانٹ کا عنصر نہیں تھا بلکہ حیرانی اور تعجب کا آہنگ غالب تھا۔ حمید اللہ نے کہا استاد محترم! اگر آپ اجازت دیں تو میں اندر آ کر سارا ماجرا بیان کروں۔ استاد نے اندر آنے کی اجازت دی جب وہ اندر آگئے تو انھوں نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ اس کی ظاہری حالت سے ایک تشویش بھی پیدا ہوئی کیونکہ آج حمید اللہ کا حلیہ بھی کافی بگڑا ہوا تھا، بالوں میں گرد تھی، ہاتھوں اور آستینوں پر مٹی اور گارے کے نشان نظر آرہے تھے، جوتا بھی مٹی سے بھرا ہوا تھا، آنکھوں میں نیند کے آثار نمایاں تھے۔

وہ استاد کے قریب آکر خاموشی سے سر جھکائے کھڑا ہوگیا اس کے ہم مکتبوں کی نگائیں، اس کے چہرے پر مرکوز تھیں کہ یکایک اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسوؤں نکل کر فرش کی گرد کا حصہ بن گئے۔ کپکپاتے ہوئے لبوں سے بڑی مشکل سے چند الفاظ نکلے، استاد محترم! کل میرے ساتھ ایک کربناک واقعہ پیش آیا۔ مغرب کی نماز کے بعد میرے والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔ ہم بہن بھائی ساری رات ان کی میت کے پاس بیٹھے درود پاک اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے رہے۔

صبح فجر کی نماز کے بعد ان کی تدفین تھی۔ میت اٹھاتے وقت میں اپنی کتابیں بھی ساتھ ہی لے آیا تھا۔ تدفین کے سلسلے میں پندرہ منٹ تاخیر ہوگئی، جس کی وجہ سے میں کمرہ جماعت میں تاخیر سے پہنچا، میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو میرا انتظار کرنا پڑا۔ میں کوشش کروں گا کہ کبھی آئندہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ یہی وہ علم کی شمع کا پروانہ تھا جو بعد میں عالم اسلام کا ایک روشن ستارہ بن کر ابھرا اور اہنے علم کی روشنی سے پوری دنیا کو منور کیا۔ آپ نے تحقیقی اغراض کے لیے متعدد اسلامی اور یورپی ممالک کا دورہ بھی کیا۔ جن میں عہد نبوی ﷺ کے میدان جنگ نامی کتاب کے سلسلے میں نجد و حجاز کے ان میدانوں کا سفر بھی کیا اور تاریخی مواد اکٹھا کیا۔ انگریزی میں جب یہ کتاب شا ئع ہوئی تو اس میں اس علاقے کے نقشے بھی شامل تھے۔

آپ نے 1952 ء سے 1978 ء تک ترکی کی مختلف جامعات میں بطور مہمان استاد خدمات انجام دیں۔ آپ 20 سال سے زائد عرصے تک فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق سے وابستہ رہے آپ نے کئی غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں شامل کیا۔

1980 ء میں میری مادر علمی جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں طلبہ کو خطبات دیے جنہیں ”خطبات بہاولپور“ کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ سر سید احمد خان کے خطبات احمدیہ کے بعد اردو زبان میں تاریخی و تحقیقی مواد کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ خصوصاً ان کا پانچواں خطبہ ”قانون بین الممالک“ ایسا موضوع ہے جو عام طور پر دینی درسگاہوں کے طالب علموں کی دسترس سے باہر ہے۔ ان کی متعدد علمی و تحقیقی تصانیف ہیں جن سے اہل علم ایک عرصہ سے استفادہ کر رہے ہیں اور ان کی بعض تصانیف متعدد یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

حکومت پاکستان نے 1985 ء میں آپ کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز پیش۔ آپ نے اعزاز کے ساتھ ملنے والی خطیر رقم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارۂ تحقیقات اسلامی کو عطیہ کر دی۔ اس جامعہ کا کتب خانہ ڈاکٹر حمید اللہ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کا انتقال 17 دسمبر 2002 ء کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ول میں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).