طالب علم حیات بلوچ کے مبینہ قتل کے ’تمام ذمہ داران‘ کی گرفتاری کا مطالبہ


کوئٹہ میں مظاہرہ

تربت میں فرنٹیئرکور کے اہلکاروں کی فائرنگ سے طالب علم حیات بلوچ کی ہلاکت کے خلاف کوئٹہ میں ہونے والے مظاہرے میں کئی مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ان کی ہلاکت کے ذمہ دار تمام اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔ یاد رہے کہ حیات بلوچ کو مبینہ طور پر 13اگست کو ایک بم دھماکے کے بعد ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔

برمش یکجہتی کمیٹی کوئٹہ کے زیر اہتمام پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے میں طالب علموں کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شرکت کی۔

مظاہرے سے خطاب کے دوران مقررین کا کہنا تھا کہ حیات بلوچ کی ہلاکت سے متلق ایف سی کے صرف ایک اہلکار کو پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب حیات بلوچ کو حراست میں لیا گیا تو وہاں فرنٹیئر کور کا صرف ایک اہلکار نہیں تھا بلکہ اس وقت کئی اہلکار موجود تھے اس لیئے ان کی ہلاکت کے ذمہ دار تمام اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے ۔

مقررین نے کہا کہ ’بلوچستان پچھلے کئی سال سے ایک شورش زدہ علاقہ ہے جہاں پر سیکیورٹی اداروں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان بھر میں آئے روز آپریشن کا سلسلہ جاری ہے اور اجتماعی سزا کے طور پر لوگوں کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’اب حیات بلوچ کی مبینہ طور پر سرِ عام ہلاک کرنے کا واقعہ ایک نئے راستہ کی طرف جانے کا عندیہ ہے جس میں بلوچ نوجوانوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا جائے گا تاکہ نوجوان خوف کے سائے تلے زندگی گزاریں اور اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دیں۔‘

تاہم بلوچستان میں سرکاری حکام اور محکمہ داخلہ کا یہ موقف رہا ہے کہ ایف سی سمیت سیکورٹی فورسز کے اہلکار قیام امن کے لیے تعینات ہیں اور بعض حلقے ایک ایجنڈے کے تحت ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے فون پر بتایا کہ سیکورٹی فورسز قیام امن کے لیے تعینات ہیں اور جہاں ان پر حملے ہوتے ہیں یا بد امنی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ آئین اور قانون کے مطابق ان میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں

یہ بھی پڑھیے

طالب علم حیات بلوچ کے مبینہ قتل کے مقدمے میں ایف سی اہلکار گرفتار

بلوچ والدین اپنے بچے سکول بھیجنا بند کر دیں!

’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو صرف ایک کالونی سمجھا ہے‘

’بھائی لاپتہ ہوا تو نقاب اتارا اور احتجاج شروع کر دیا‘

ان کا کہنا تھا بلوچ عوام بلوچستان بھر میں مبینہ طور پر غیر انسانی جرائم میں ملوث سیکورٹی اداروں کا احتساب چاہتی ہے جو ان کے بقول بلوچستان بھر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

مظاہرے کے شرکاء نے ایک قرارداد بھی منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ فرنٹیئر کورکو بلوچستان کے تمام شہروں سے فوری طور پر نکالا جائے اور ان کی سیکورٹی کی ذمہ داری پولیس کے حوالے کیا جائے۔

اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کو سر عام گولی مارنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی بلوچستان میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر کہیں سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس کے بعد بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے جن کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اور بعد میں ان میں سے بعض کو حراست میں ہلاک کرکے ان کی لاشیں پھینکی جاتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تربت میں کچھ عرصہ قبل مبینہ ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے لوگوں نے گھروں پر حملہ کیا جن میں ملک ناز اور کلثوم نامی دو خواتین ہلاک ہوئیں جبکہ ایک بچی زخمی ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ ملک ناز کے قتل کے الزام میں جس بڑے ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا ان کو گرفتاری کے دو روز بعد چھوڑ دیا گیا۔

وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ’تین روز قبل کراچی سے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ شخص خان محمد بگٹی کو مبینہ طور خفیہ اداروں کے اہلکار ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئے اور گزشتہ روز ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش پھینک دی گئی۔‘

ماما قدیر کے بقول ’31جولائی کو پہلے سے ڈیرہ بگٹی سے جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد کو حراست میں ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشیں راجن پور کے علاقے میں پھینک کر یہ کہا گیا کہ یہ دہشت گرد تھے۔‘

تاہم کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے ان پانچ افراد کے بارے میں جو بیان جاری کیا تھا اس کے مطابق ’یہ لوگ دہشت گرد تھے اور سی ٹی ڈی سے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔‘

سی ٹی ڈی کے مطابق ان افراد کے ٹھکانے سے اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا تھا۔

کوئٹہ میں مظاہرہ

حکومت کا موقف

جب سیکورٹی فورسز پر لگائے جانے والے ان الزامات کے حوالے سے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو سے فون پر متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نھیں ہو سکا۔

تاہم اس سے قبل محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان ایف سی سمیت سیکورٹی فورسز پر ایسے الزامات کو سختی مسترد کرتا رہا ہے۔

بلوچستان میں سرکاری حکام اور محکمہ داخلہ کا یہ موقف رہا ہے کہ ایف سی سمیت سیکورٹی فورسز کے اہلکار قیام امن کے لیے تعینات ہیں اور بعض حلقے ایک ایجنڈے کے تحت ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے فون پر بتایا کہ سیکورٹی فورسز قیام امن کے لیے تعینات ہیں اور جہاں ان پر حملے ہوتے ہیں یا بد امنی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ آئین اور قانون کے مطابق ان میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک حیات بلوچ کے مارے جانے کا تعلق ہے اس کے حوالے سے باقاعدہ فرنٹیئر کور کے اہلکار کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرنٹیئر کور کا اہلکار ریمانڈ پر پولیس کے حوالے ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگی گی۔

حیات بلوچ کون تھے ؟

حیات بلوچ کا تعلق ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی ضلع کیچ سے تھا۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم تھے۔

13اگست کو ایک بم دھماکے کے بعد ایف سی اہلکاروں نے مبینہ طور پر ا نہیں فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔

ان کے بھائی مراد محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ چھٹیوں پر گھر آئے تھے اور اس روز جائے وقوعہ کے قریب ایک باغ میں والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغ میں گھس آئے اور’حیات بلوچ کو تھپڑ مارے، بعد میں اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے گئے اور روڈ پر لا کر آٹھ گولیاں ماری گئیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔‘

تربت پولیس کے ایک پریس ریلیز کے مطابق 13 اگست کو آبسر روڈ پر بلوچی بازار کے مقام پر ایف سی کی دو گاڑیوں پر دھماکہ ہوا تھا، جس پر ایف سی کے اہلکار نے قریبی باغات میں موجود محمد حیات کو اپنی سرکاری رائفل سے گولیوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں محمد حیات ہلاک ہوگئے۔

حیات بلوچ کی ہلاکت کا مقدمہ ان کے بھائی محمد مراد کی مدعیت میں درج کروایا گیا ہے۔

محمد مراد نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ وقوعہ کے وقت تقریباً دن بارہ بجے وہ ڈیوٹی پر تھے جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ایف سی اہلکار نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق جب وہ بتائی گئی جگہ پر پہنچے تو ان کے بھائی حیات کی لاش خون میں لت پت سڑک کے جنوبی کنارے پر پڑی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے پوچھنے پر میرے والد نے بتایا کہ ایف سی کے دو اہلکار باغ میں آئے اور حیات کو گھسیٹ کر سڑک پر لے گئے۔‘

مدعی مقدمہ کے مطابق ان کے والد نے انھیں بتایا کہ ’ایف سی کے ایک باریش سفید کپڑوں میں ملبوس شخص نے میرے سامنے حیات کو سڑک پر اپنی رائفل سے فائرنگ کر کے قتل کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp