مختار مسعود، کمپنی بہادر اور برصغیر کے مسلمانوں کا تعلیمی سفر


نو آبادیاتی دور میں محکوم قوموں کے لوٹے ہوئے مادی و مالی وسائل کا موجودہ عالمی طاقتوں کی بے پناہ ترقی میں کلیدی کردار ہے۔ ہندوستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حوصلہ شکنی اور یہاں سے منتقل کیا جانے والا خام مال تاج برطانیہ کے صنعتی انقلاب اور کسی حد تک ہماری پستی کی بنیادوں میں شامل ہے۔

’آواز دوست‘ والے مختار مسعود، تین خصوصیات کی بناء پر برصغیر میں برطانوی سامراج کو تاریخ اقوام عالم کا منفردسیاسی تجربہ قرار دیتے ہیں۔ اولا ایک تجارتی کمپنی کا ہزاروں میل دور ایک براعظم پر قابض ہونا۔ دوم، تاج برطانیہ کا سیاسی گفت و شنید، انتظامی حکمت عملی اورتاریخی موقع شناسی کے ذریعے برصغیر کو بالآخر آزادی عطا کرنا، جبکہ تیسرا اہم پہلو کسی یورپی سامراجی حکومت کا اپنے مقبوضہ علاقے میں مربوط معاشرتی بہبود اور معاشی ترقی کا کام ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ مصنف کے مطابق اس باب میں مستعد انتظامیہ، غیر جانبدار عدلیہ، عظیم نہری جال، ناقابل عبور دریاؤں پر پلوں کے ساتھ ملک گیر ریلوے، ڈاک و تار، رفاہ عامہ کے لئے جدید میونسپلٹی اور سب سے بڑھ کر جدید اور نافع تعلیمی نظام شامل ہیں۔

عزت مآب ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام 1600 ء میں چین اور ہندوستان کے ساتھ کپاس، ریشم، مصالحہ جات نیل اور افیون کی تجارت کے لئے عمل میں لایا گیا۔ پلاسی اور بکسر کی جنگوں میں بنگالی نوابوں کی شکست او ر دیگر سے نبرد آزما ہوتے ہوئے، 1803 ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی ڈھائی لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل پرائیویٹ فوج کی مالک تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو انگریز محدود پیمانے کے ’غدر‘ سے یاد کرتے ہیں۔ اسی سال تاج برطانیہ نے ہندوستان کا کنٹرول خود سنبھال لیا اور نوے سال تک چند ہزار برطانوی سول افسروں اور لگ بھگ پچاس ہزار فوجیوں کے ساتھ کروڑوں ہندوستانیوں پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ سترویں صدی میں ہی تاجروں اور کسانوں نے کروم ویل کی قیادت میں شاہ برطانیہ کا تختہ الٹا مگر کچھ ہی عرصے بعد شاہ کے وفاداروں نے بادشاہی بحال کر کے کروم ویل کی لاش کو قبر سے نکال کر سولی پر لٹکا دیا۔ تاجروں کو ایک معاہدے کے تحت ہاؤ س آف کامنز تک محدود کر دیا۔

ہندوستان میں مگر ہمارے آبا و اجداد تاجروں کی کمپنی بہادر کے سامنے سر نگوں ہوتے چلے گئے۔ کمپنی بہادر کی جگہ اب تاجروں کے دیسی خاندان ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک انتہائی اہم عہدے پر فائز شخصیت کے ریمارکس رپورٹ ہوئے کہ جس سے یہ تاثر ملا کہ گویا وہ ملک میں ماشل لاء کی جگہ آج بھی انگریزوں کی حکومت کوترجیح دیں گے۔ وجہ جو بھی ہو، مجھے یقین ہے کہ ذاتی رنجش نہیں بلکہ ضرورکمپنی بہادر اور بعد ازاں تاج برطانیہ سے منسوب آئین و قانوں پر مبنی حکمرانی کی شہرت ہی ان کے پیش نظر رہی ہوگی۔ کمپنی بہادر کا ذکر تو اب اس قدر محبت سے سننے کو نہیں ملتا، تاہم برطانوی دور حکومت اور دور حاضر کے تاجر حکمران خاندانوں کے مداحین ہمارے ہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

تاج برطانیہ کی دوسری خصوصیت جس کا ذکر مختار مسعود نے کیاہے وہ ’اس کا سیاسی گفت و شنید، انتظامی حکمت عملی اورتاریخی موقع شناسی کے ذریعے برصغیر کو آزادی عطا کرنا ہے‘ ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ چرچل اور ان کی پارٹی برصغیر کی آزادی کو در حقیقت برطانوی ایمپائر کا خاتمہ سمجھتے اوراس کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کو اگلے تیس سال سے پہلے ہر گز ہندوستانیوں کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

ایک طرف جنگ عظیم نے تاج برطانیہ کو شکستہ حال کر کے رکھ دیا، تو دوسری طرف انتخابات میں لیبر پارٹی نے چرچل کواقتدار سے نکال باہرکیا۔ بدلی صورت حال میں، متحدہ ہندوستان کے حامی لارڈ ویول کو فوری طور پر واپس بلا کر بادشاہ کے کزن لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان بھیجا گیا۔ نئے وائسرائے کے گاندھی اور نہرو سے تعلقات اب پوشیدہ نہیں رہے۔ چھ سو کے لگ بھگ دیسی ریاستوں کو خود مختاری کا آئینی حق دیے جانے کے باوجود، بقول سردار پٹیل ان ’سیبوں‘ کا چن چن کر بھارتی ٹوکری میں ڈالے جانے کے لئے کی جانے والی ماؤنٹ بیٹن اور کانگرسی رہنماؤں کے گٹھ جوڑ کی سازشیں بھی اب راز نہیں رہیں۔ کشمیر کا رستا ہوا زخم آج بھی تاج برطانیہ کے ماتھے پر ماؤنٹ بیٹن اور نہروٹولے کی بے اصولی، بے رحمی، بے انصافی اور ہٹ دھرمی کارستا ہوا نشان ہے۔

مختار مسعود صاحب کی فہرست میں شامل انگریز دور میں کی گئی مفاد عامہ کی اصلاحات یقیناً غیر معمولی نوعیت کی تھیں کہ جدید پاک و ہند کی مجموعی ترقی اب بھی انہی کی مرہون منت بتائی جاتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں ہم ورثے میں ملنے والے نہری نظام میں خاطرخواہ اضافہ یا جدیدیت نہیں لا سکے۔ جو ملک پانی کی قلت کے شدید ترین خطرے سے دوچار ہو، وہاں لاکھوں کیوبک فٹ پانی ہر روز سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ ریلوے کا شاندار نظام جسے راج کی عظمت کا استعارہ سمجھا جاتا تھا، زبوں حالی کا شکار ہے۔

جو انجن، بوگیاں اور ریل ٹریک ہمیں ورثے میں ملے ان میں اضافہ تو درکنار کمی ہی واقع ہوئی۔ انتظامیہ، مفاد عامہ کے شعبہ جات کسی طور بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔ یہاں اس امر کی نشان دہی ضروری ہے کہ برصغیر میں متعارف کرائی گئی تمام اصلاحات کسی ایک قوم کے لئے مختص نہیں تھیں۔ مختار مسعود صاحب کے مطابق جہاں جدید انفراسٹرکچر اور مفاد عامہ کی اصلاحات سے فائدہ اٹھانا تمام ہندوستانیوں کی دسترس میں تھا تو وہیں انگریزی نظام تعلیم سے مستفید ہونا یا نا ہونا ہندؤوں اور مسلمانوں کے اپنے اختیار میں تھا۔

مقامی ہندؤوں اور ایک ممتاز برطانوی تاجر کے اشتراک سے کلکتہ کے اندرپہلا ہندو کالج سال 1819 ء میں قائم ہوا۔ وائسرائے نے 1823 ء میں ایک سنسکرت کالج کی تجویز پیش کی تو اس کی مخالفت ہندؤوں نے یہ کہہ کر کی کہ انہیں سنسکرت گرائمر اور ویدوں پر مبنی مذہبی تعلیم نہیں بلکہ علوم انسانی اور جدید سائنسی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ 1935ء میں پیش کردہ ایک قرار داد میں ہندو رہنماؤوں نے حکومت وقت سے ہندوستانیوں کے لئے 15 سال کی عمر تک لازمی اور مفت تعلیم کا مطالبہ کیا۔

کہا گیا کہ مقامیوں کے لئے میڈیکل اور انجنیئرنگ تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے سواد اعظم نے جدید مغربی تعلیم کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور کھل کر اس کی مخالفت کی۔ 1835 ء میں آٹھ ہزار مسلم رؤسا اور علماء کی جانب سے کمپنی بہادر کو لکھے گئے ایک احتجاجی مراسلے میں شکایت کی گئی کہ جدید تعلیم کے لئے مختص کردہ کثیر رقم دراصل مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے ہے۔ 1844 ء میں انگریزی کو فارسی کی جگہ سرکاری زبان کا درجہ مل گیا تو برصغیر کے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی پستی کے لامتناہی عمل کا آغاز ہو گیا۔

سال 1877 ء میں سر سید نے مسلمانوں کے لئے جدید مغربی تعلیم کو ناگزیر جانا اورعلی گڑھ میں ایک اعلیٰ انگریز عہدے دارکی امداد سے ایک مدرسہ کی داغ بیل ڈالی جو کچھ سالوں بعد ایم او کالج اور پھر مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کے نام سے جاناگیا۔ آر۔ سی۔ موجمدار کی ’تاریخ آزادی‘ کے مطابق سر سید کی درس گا ہ کے قیام کے وقت ہندوستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم 17,350 طالب علموں میں سے صرف 1630 مسلمان تھے۔

1636 ہندو گریجویٹس اور 240 بار ایٹ لاء کے مقابلے میں صرف 26 مسلمان گریجویٹس اور سارے ہندوستان میں صرف ایک مسلمان بارایٹ لاء تھا۔ 104 مقامی ڈاکٹرز تھے جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ پورے برصغیر میں صرف تین مسلمان انجنیئرز تھے۔ مسلم اکثریتی صوبہ پنجاب کی لاہور ہائی کورٹ کی قیام پاکستان تک کی 81 سالہ تاریخ میں صرف سات مسلمان جج گزرے۔

ہندوؤں نے میڈیکل اور انجنیئرنگ تعلیم کے مطالبہ پر مبنی جو قرارداد 1823 ء میں پیش کی تھی، مسلمانوں کی طرف سے ایسا باقاعدہ خیال ایک سو دس برس بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک جلسہ میں پیش کیا گیا۔ جولائی 2017ء میں اپنی زندگی کی آخری کتاب ’حرف شوق‘ میں مختار مسعودبالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ’کلکتہ میں ہندو کالج اور علی گڑھ میں سر سید کے مدرسۃ العلوم کی رسم افتتاح کے درمیان ساٹھ سال کا تعلیمی فاصلہ ہے، جو برصغیر کے مسلمان آج تک طے نہیں کر سکے‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).