حلیمہ کی بیٹی


حلیمہ کو دیکھ کر سب کہتے۔ کیسی عورت ہے اپنی صحت کا خیال نہیں کرتی اور دن بھر محنت مشقت کرتے نہیں تھکتی۔ حلیمہ کو جو پہلی نظر دیکھتا تو یہ ضرور کہتا۔

”دیکھو تنکا سی ہے، اس میں جان نام کی چیز ہی نہیں“ ۔
کچھ منہ پھٹ کہہ بھی دیتے۔
”ہائے حلیمہ تم بچپن سے ایسی ہو کہ اب ڈائٹنگ کا شوق چرایا“ ۔
”حلیمہ سب کی اپنے دبلے وجود کے متعلق باتوں کو ہنس کر ٹال دیتی“ ۔

وہ ایسی ہی نرم مزاج اور ہنس مکھ تھی کوئی بات بری بھی لگتی تو بحث نہ کرتی۔ معلوم نہیں غصہ اس سے روٹھا تھا یا حلیمہ نے خود پر غصہ حرام کر رکھا تھا۔

حلیمہ کی مثال عورتیں اپنے کام چور و نکھٹو مردوں کو دیتیں۔ جو سارا دن گلی محلے کی دکانوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑاتے ٹھٹھے لگاتے بے روزگاری کا رونا روتے اور حکومت کو لعن طعن کرتے۔ محنت مزدوری کو گناہ سمجھتے اور آسمان کی جانب نگاہیں اٹھا کر چھپڑ پھاڑ خزانے کے گرنے کا انتظار کرتے رہتے۔

سارا خاندان حلیمہ کی کفایت شعاری اور سلیقہ مندی کے گن گاتا۔ جس کسی کو ادھار کی ضرورت ہوتی حلیمہ کا دروازہ بلاجھجک کھٹکھٹاتا۔ سب جانتے تھے وہ کبھی انکار نہیں کرے گی۔ ایک طرح سے حلیمہ اپنا بینک بیلنس بنا رہی تھی۔ اس کو اپنا ذاتی گھر خریدنے کا شوق تھا جس کی خاطر وہ محنت مزدوری کرتی۔

اکثر کہتی ”ہم نے ساری زندگی دربدر دھکے کھائے اب ہمارے بچے ایسی زندگی گزاریں گے۔ ہم مالک مکان کا رعب اور تلخ باتیں سننے کے عادی ہو گئے کیا ہمارے بچے بھی یوں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کریں گے۔

وہ یہی سوچتی رہتی ”کیا ہم اولاد کو ترکے میں لوگوں کی گالیاں برداشت کرنا اور چپ کا روزہ دے کر جائیں گے۔ کم از کم اپنے بچوں کو اچھی تربیت اور اپنا ذاتی مکان ہی دے جائیں“ ۔

حلیمہ کی سوچ اپنے خاندان کے لوگوں سے بہت الگ تھی اس لیے وہ محنت کرنے سے گھبراتی نہیں تھی۔ اس کی زندگی کا مقصد کرائے کے مکان سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ حالاں کہ اس کا میاں اور بڑا بیٹا کام کرتے تھے لیکن بچت نہ ہو پاتی۔

جب اس نے دیکھا کہ آس پاس کی عورتوں نے گھروں سے باہر قدم نکالے ہیں تو حلیمہ بھی ان کے ساتھ چل پڑی۔ کچھ کے مرد مزدور پیشہ تھے اور کچھ کے نشے میں دھت پڑے رہتے۔ بھوک سے تڑپتے بچوں نے ان عورتوں کو مزدوری کی راہ دکھائی۔ جب ایک گھر کے لوگ بھرے پیٹ سے مسکرانے لگے تو آہستہ آہستہ سب اپنے پیٹ کی خاطر کام ڈھونڈنے نکلنے لگیں۔ کچھ عورتیں فیکٹری جاتیں جہاں مختلف ادویات کو الگ الگ کرنا ہوتا تو کہیں نئے بنے کپڑوں سے دھاگے کاٹنے کا کام ہوتا۔ کچھ قریبی گھروں میں کام کرنے لگیں۔

حلیمہ ایک دو ماہ فیکڑی گئی پھر ساتھ والی کو بڑے گھر سے تھیلے بھر کر کھانا اور کپڑے لاتے دیکھا تو سوچا کیوں نہ کسی گھر کا کام پکڑ لے۔ یوں کھانے کی بھی بچت ہو گی اور پرانے کپڑے بھی مل جائیں گے۔ کچھ دن کی بھاگ دوڑ کے بعد ایک گھر کا کام مل گیا۔ لیکن اس گھر کے لوگ دوسروں کی طرح کھلے دل کے نہیں تھے۔ کبھی دو تین دن بعد کٹوری میں رات کا بچا سالن دے کر احسان کرتے۔ ایک گھر کا کام ملا تو یہ سلسلہ چل پڑا یوں حلیمہ دن بھر تین چار گھروں کی صفائی کا کام کرتی اور گھر جاتے کھانے کا بندوبست ہوا ہوتا۔

اب بڑی بیٹی بھی ماں کا ہاتھ بٹانے لگی اسکول بارہ بجے لگتا۔ جانے سے پہلے ایک گھر کا کام ماں کے ساتھ کروا کر جاتی۔ یوں ذاتی مکان کے لیے کمیٹی کی شکل میں پیسے جمع ہونے لگے جو نکلتی تو خاندان میں کسی ضرورت ہوتی تو دے دیتی۔ سردی حلیمہ کو راس نہ آتی۔ زیادہ تر چھٹیوں میں دن کٹتے۔ کچھ گھر پیسوں کی کٹوتی کرتے۔ کچھ خوف خدا کھا جاتے۔ اس دفعہ بھی سردی آتے حلیمہ کو شدید کھانسی ہونے لگی۔ ٹیسٹ ہونے پر ٹی بی کا مرض سامنے آیا۔ یوں زیادہ کام کرنے کی ہمت نہ رہی۔ اب ٹی بی کا مرض بھی غریب طبقے کی قیمتی میراث بن چکا ہے کوئی ایسا نہیں جہاں ٹی بی کی سوغات نہ ہو۔ بلکہ جس گھر ٹی بی کا کوئی مریض نہ ہو اسے محلے دار شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ ہم سے اپنی بیماری چھپائی جا رہی ہے۔

سردی اور بیماری کی وجہ سے حلیمہ نے سب گھروں کا کام چھوڑ دیا۔ صرف ایک گھر کا کام کبھی کبھار بیٹی کے ساتھ کرنے جاتی۔ اس گھر سے ادھار رقم آسانی سے مل جاتی چاہے واپس کرتے نجانے کتنے ماہ تنخواہ کی کٹوتی کروانی پڑتی۔ پھر بھی وہ اس گھر کا کام چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ مشکل وقت میں یہی ساتھ دیتے۔ وقتی طور پر مشکل ٹل جاتی لیکن آنے والے دن مہینے غیر ضروری کاموں کے بوجھ تلے گزرنے لگتے۔

اس گھر کے لوگ بہت روکھے مزاج کے تھے۔ کبھی ہنس کر بات نہ کرتے۔ کام کرواتے وقت ملازم کا احساس نہ کرتے بلکہ تنخواہ کا حساب رکھتے اور کوئی رعایت نہ بخشتے۔ دل کے کھلے بھی نہیں تھے لیکن دروازہ دن چڑھتے ہی کھول دیتے کوئی فقیر صدا لگاتا تو ایک رٹا رٹایا جملہ سب اہل خانہ کی زبان پر ہوتا۔

”معاف کر بابا“ ۔

ایک دن حلیمہ کی بیٹی گیٹ کے پاس فرش دھو رہی تھی کہ ایک فقیر آیا اندر سے وہی جانی پہچانی آواز آئی۔ ”معاف کر بابا“ ۔

بچی مالکن کو روز یہی بات کہتے سنتی۔ ”معاف کر بابا“ ۔ آج اسے نجانے کیا سوجھی کہ اپنے دوپٹے کے پلو کی گرہ کھول کر ایک سکہ فقیر کو تھمانے چل دی وہ غریب تھی لیکن دل کی امیر تھی۔

فقیر دعائیں دینے لگا مدت بعد اس دروازے پر کسی فقیر نے دعا دی۔ دعائیہ کلمات سننے کی دیر تھی اندر سے خاتون خانہ کا بلاوا آیا۔

”آج یہ حرکت کی ہے آئندہ یوں کسی مانگنے والے کو پیسے نہ دینا۔ ان لوگوں کا تو کاروبار ہے اب بندہ کس کس کو پیسے دے“ ۔

”خالہ یہ میں نے امی کا صدقہ نکالا تھا وہ بیمار ہیں نا جلدی ٹھیک ہو جائیں گی“ ۔ حلیمہ کی بیٹی بولی۔

”اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ بڑی آئی صدقہ دینے والی۔ لوگ بھی نرالے ہیں اپنی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی اور دوسروں کو صدقہ دیتے ہیں“ خاتون تنفر سے بولیں۔ بچی سر جھکا کر کھڑی رہی۔ وہ یہی سنتی آئی تھی کہ ”صدقہ دینے سے بلائیں ٹلتی ہیں اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ صدقہ غریب نہیں دے سکتے کیونکہ ان کی دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی ہے“ ۔

جاتے ہوئے فریج میں سالن کی کٹوری پڑی ہے وہ لیتی جانا۔ ۔ ۔ بہت لذیذ بھنڈی گوشت کا سالن ہے کھاؤ گے یاد کرو گے ”۔ خاتون احسان جتاتے بولیں۔

بچی نے سالن چھوٹے سے شاپر میں ڈالا اور کٹوری کچن میں رکھ کر گھر چلی گئی۔
————————
رات کا پچھلا پہر تھا کہ حلیمہ کے چھوٹے سے گھر میں ہائے ہائے اور کرہانے کی آوازیں آنے لگیں۔
مونا کے ابا! جلدی اٹھو اپنی مونا کی طبعیت سنبھل نہیں رہی اسے اسپتال لے کر جانا ہے۔

حلیمہ دن بھر کے تھکے ہارے شوہر کو جگانے کی کب سے کوشش کر رہی تھی آخر شکور بھی بیٹی کی درد سے کراہتی آواز پر اٹھ بیٹھا۔

ڈسپنسری عشاء کے بعد بند ہو جاتی ہے اس وقت ہم کہاں جائیں۔ تم ایسا کرو بیٹیا کو قہوہ بنا کر پلاؤ میں اتنی دیر تک اسٹاپ والے اسٹور سے سیون اپ لے کر آتا ہوں۔

”کچھ بھی ہو جائے ہم پاکستانی قہوے اور سین اپ سے پیٹ درد کا علاج کرنے والی روایت کو توڑ نہیں سکتے“ ۔
حلیمہ کا شوہر بیٹی کے پیٹ درد کو معمولی جانتے ہوئے بولا۔

قہوہ بھی پلا چکی اور گھر میں حکیم صاحب کی پھکی پڑی تھی وہ بھی دی لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ حلیمہ رونے کے قریب تھی۔

”حکیم صاحب کی پھکی کی ایک خوراک ہی ہر طرح کے پیٹ درد کے لیے کافی ہوتی ہے بیٹیا کو افاقہ کیوں نہیں ہوا“ ۔

اس کی حیرت بجا تھی شکور حکیم صاحب کی پھکی پر پکا ایمان رکھتا تھا اگر پھکی سے پیٹ درد ختم نہیں ہو سکا تو پھر ڈاکٹر کے پاس ہی جانا چاہیے۔

کچھ لمحے دونوں میاں بیوی بیٹی کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھے رہے شاید سورج نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔

مونا کی آواز بھی درد سے تھک ہار کر بند ہو گئی۔
مشکل سے دو گھنٹے گزرے کہ پھر درد کی لہر سے مونا کراہنے لگی۔

شکور نے گھڑی کی طرف دیکھا جو چار کے ہندسے پر تھی اب اس وقت اسپتال جانے کے لیے سواری کہاں سے ملے گی۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حلیمہ دوپٹہ لپیٹ کر بیٹی کو بستر سے اٹھا کر جوتے پہنانے لگی۔

چل مونا کے ابا جلدی کر اس کی حالت اب دیکھی نہیں جا رہی۔ ہماری بیٹیا کو کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے۔ میری اولاد بڑی قیمتی ہے۔

حلیمہ حکم نامہ صادر کرتے ہوئے بولی۔
لیکن اس وقت سواری ملنا مشکل ہے۔ شکور بولا۔
ہم باہر نکلتے ہیں کوئی نہ کوئی وسیلہ بن جائے گا اب بچی کو گھر میں ڈال کر مار دوں۔

”اچھا میں ساتھ والے فیضی کا پتا کرتا ہوں شاید رکشہ لے کر واپس گھر آ گیا ہو“ ۔ شکور پریشانی کے عالم میں پاؤں میں جوتے اڑستے چل دیا۔

فیضی گھر پر ہی تھا ساری بات سن کر اس نے شکور سے کہا۔
”چاچا تو گھر والوں کو لے کر باہر آ میں ابھی پانچ منٹ میں رکشہ اسٹارٹ کرتا ہوں“ ۔
شکور اسے دعائیں دیتا گھر کی جانب بڑھا جہاں مونا درد سے چیخ رہی تھی۔

مزدور محنت کش طبقے کے محلے میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ روزمرہ کے کاموں کی توڑ پھوڑ کی مرمت کروانے اور بھاگ بھاگ کر الیکڑیشن، پلمبر کی منتیں نہیں کرنی پڑتیں۔ زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے چھوٹے موٹے کام بغیر کسی لالچ اور غرض کے کر دیتے ہیں۔

اس رات اسپتال جاتے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اب یہاں کتنے ماہ قیام کرنا پڑے گا۔ دن بھر کی مشقت کے بعد باپ رات کو تھکا ہارا بیٹی کے سرہانے بیٹھ کر اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنے لگتا تو ماں سر جھکائے چپ چاپ آنسو بہاتی رہتی۔ حلیمہ اپنی دوائی نہ لیتی اور اپنی کمائی اور پونجی سے بیٹی کا علاج کروانے لگی اب کہاں کا گھر اور کہاں کی بچت۔ اولاد کی زندگی کا معاملہ ہو تو ماں باپ اپنی سب خواہشیں قربان کر دیتے ہیں۔ حلیمہ بھی

مونا کو دن بدن کمزور ہوتے دیکھتی تو کلیجہ منہ کو آتا۔ پہلے ڈاکٹروں نے عام پیٹ درد سمجھ کر دوائیاں دیں لیکن پیٹ درد ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اب سارا دن ٹیسٹ کرواتے کبھی وارڈ اور کبھی لیبارٹری کے چکر لگواتے۔ جب حلیمہ کی ہمت جواب دے جاتی تو خود کو کوسنے لگتی۔

”اماں تو خود کو کیوں کیوں کوستی ہے، تیرا اس میں کیا قصور ہے میں ٹھیک ہو جاؤں گی“ مونا ماں کو تسلی دیتی۔

”سارا قصور میرا ہے مونا میں پیسہ دیکھ کر اندھی ہو گئی تھی۔ محنت سے کمائے رزق میں برکت ہوتی ہے لیکن جب محنت میں طمع و لالچ شامل ہو تو انسان کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے“ ۔

”اماں تو کیسی باتیں کر رہی ہے خود کہتی تھی محنت کرنے والے لوگ لالچی نہیں ہوتے“ ۔ مونا حیرت سے پوچھنے لگی۔

”ہاں بیٹیا محنت کرنے والے لالچی نہیں ہوتے لیکن تمہاری ماں نے بہت لالچ کیا۔ اپنی کمائی جمع کرتی رہی اور اولاد کو لوگوں کی اترن اور بچا کچھا کھلانے لگی۔ اس لیے آج اولاد کو اس حالت میں دیکھ کر چین و سکون نصیب نہیں ہو رہا۔

حلیمہ منہ ہر دوپٹہ رکھ کر رونے لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).