منصب کا تقاضا صلاحیت ہے یا عقیدہ؟


\"farnood-alam\"گوکہ پروفیسر مشتاق صاحب کے ساتھ معاملہ ہم عمر دوستوں جیسا ہی ہے، مگر میرے لیے ان کا درجہ کسی استاد سے کم نہیں۔ آپ بین ااقوامی اسلامی یونیورسٹی میں قانون و شریعت کے استاد ہیں اور سچ پوچھیے تو ڈاکٹر محمود غازی مرحوم اور پروفیسر عمران نیازی جیسے عبقریوں کی مسند کے امین ہیں۔ میں باقاعدہ ان کی درس گاہ میں کبھی بیٹھا نہیں مگر گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھ کر بین الاقوامی قانون کے رموز سمجھے ہیں۔ میرے کل کے شذرے کا جواب لکھ کر انہوں نے عزت بخشی ہے، شکر گزار ہوں۔ ان کا جواب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کرتا ہوں، اس کے بعد اپنا جواب آپ کے ذوقِ تنقید کی نذر کروں گا۔ رائے تو کسی بھی غلط ہوسکتی ہے، میں طالب علم ہوں، اس لیے غلطی کا امکان زیادہ روشن ہے۔ ملاحظہ ہو استاد محترم کا جواب

”قادیانی“ آرمی چیف اور لبرلزم کا پائے چوبیں  (پروفیسر محمد مشتاق)

آج فیس بک پر مسلسل کئی پوسٹس نظر سے گذریں جن میں متوقع آرمی چیف کے قادیانی ہونے یا نہ ہونے پر بحث کی گئی ہے۔ کئی دوستوں نے اس ضمن میں میری رائے پوچھی ہے۔ میں اس پر الگ سے لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ کیوں آرمی چیف کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ سردست ایک ”نولبرل“ (فرنود عالم) دوست کی موشگافیوں پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔ ان نولبرل دوست کی وال تک میری رسائی نہیں ہے۔ ایک اور دوست نے ان کے ارشادات مجھے بھیجے اور ان پر تبصرے کے لیے کہا۔ چنانچہ یہ چند سطور لکھ رہا ہوں:

فرماتے ہیں:

”پاکستانی ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ آپ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا کسی بھی گھرانے میں پیدا ہونا پاکستانیت کی کسی بھی درجے میں نفی نہیں کرتا۔ “

عرض ہے:

تو جو ہزاروں افغانی پاکستان میں پیدا ہوئے وہ کیوں پاکستانی نہیں ہوئے؟ گویا محض پاکستان میں پیدا ہونا پاکستانی ہونے کےلیے کافی نہیں ہے۔

مزید فرماتے ہیں:

”کوئی بھی شہری کسی بھی گھرانے میں پیدا ہونے سے پہلے استخارہ نہیں کرتا۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونا میرا کمال نہیں اور احمدی گھرانے میں پیدا ہونا کسی کا قصور نہیں۔ “

عرض ہے:

استخارے والی بات محض زیب داستاں کےلیے اضافہ کی گئی ہے۔ اسے نظرانداز کیجیے۔ اگلی بات پر غور کریں۔ پیدائش کوئی کمال یا قصور نہیں لیکن بلوغت کے بعد مسلمان رہنا یا احمدی رہنا کمال یا قصور ہے، بالکل اسی طرح جیسے کوئی بھی دوسرا اچھا کام کمال اور کوئی بھی دوسرا برا کام قصور ہوتا ہے۔ اسلام یا کفر کا انتخاب یا اس پر بقائمی ہوش و حواس باقی رہنا بہرحال کمال یا قصور ہے اور اسی طرح کے کمال یا قصور پر خود لبرلز بھی یقین رکھتے ہیں ورنہ یہ حضرت یہ تنقید کیوں کرتے؟

آگے فرماتے ہیں:

”کسی بھی فرد کا بطور شہری کسی بھی منصب پر بیٹھ کر ملک کی خدمت کرنا، اس کا پیدائشی حق ہے۔ “

جواباً عرض ہے:

\"constitution-of-pakistan\"

کسی بھی منصب پر فائز ہوکر ملک کی خدمت کرنے کےلیے محض شہری ہونا کافی نہیں ہے ورنہ کیا فرنود عالم کو اسی طرح چیف جسٹس بننے کا حق ملنا چاہیے جیسے انور ظہیر جمالی کو ہے؟ عمر و تعلیم اور دیگر کورسز کی شرط رکھی جاسکتی ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیز سے کلیئرنس رپورٹ درکار ہوتی ہے تو مذہب کی شرط کیوں نہیں رکھی جاسکتی؟ اور مذہب کی یہ شرط صدر سمیت کئی عہدوں کے لیے دستور اور قانون نے پہلے ہی رکھی ہوئی ہے۔ جب تک وہ دستوری اور قانونی شقیں ختم نہیں کی جاتیں، یہ باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

مزید یہ کہ منصب پر فائز ہوکر خدمت کرنا حق نہیں ذمہ داری ہے۔ پیدائشی حق تو بہت دور کی بات ہے۔ دستور میں بنیادی حقوق کی فہرست میں دیکھیے۔ کہاں لکھا ہے کہ صدر یا آرمی چیف بننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے؟

اور جو بنیادی حقوق اس فہرست میں دیے گئے ہیں ان پر بھی قانوناً کتنے قدغن عائد کیے جاسکتے ہیں اور عائد کیے گئے ہیں؟

مزید فرماتے ہیں:

”کسی بھی منصب پر آنے والے شہری کی اہلیت اور میرٹ پر سوال اٹھانے کا ہر شہری کو حق ہے، کلمہ سننے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ چار قل اور چھ کلمے یاد ہونا ایمانداری اور حب الوطنی کی ضمانت نہیں ہو سکتا۔ “

عرض ہے:

جب مان لیا کہ اہلیت اور میرٹ پر سوال اٹھانے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے تو آدھا کیس تو خود ہی مان لیا۔ باقی آدھے پر اس طرح غور کیجیے کہ اہلیت اور میرٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے معیار کیا ہے؟ لبرلزم کے توہمات یا اسلامی قانون کے اصول؟

’’جوابِ آں غزل‘‘ (فرنود عالم)

1۔ کسی بھی مذہب و مسلک کا اجتماعی شعور اپنے عقیدے پر اس لیے ہوتا ہے کہ آبا و اجداد اس عقیدے پر چلے آرہے ہوتے ہیں۔ سنیوں کی اکثریت اپنے والدین کی وجہ سے سنی ہے اور اہل تشیع کی اکثریت والدین ہی کی وجہ سے شیعہ ہے۔ کچھ دیر کے لیے فرض کریں کہ یہی سنی اکثریت اگر شیعہ گھرانوں میں پیدا ہوجاتی، تو؟ یا یہی شیعہ اکثریت سنی گھرانوں میں پیدا ہوجاتی، تو؟ کیا معاملہ برعکس نہ ہوجاتا؟ کیا یہ کہنا انصاف ہوگا کہ مسلمانوں مسیحیوں یہودیوں سنیوں اور شیعوں کا اجتماعی شعور بقائمی ہوش و حواس اپنے عقیدے پر کاربند ہے؟ اگر نہیں، اور ظاہر ہے کہ نہیں تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہر مذہب اور مسلک کا اجتماعی شعور ہوش کھو چکا ہے؟ اگر احمدی اکثریت کا عاقل بالغ ہونے کے بعد بھی احمدی ہونا معاشرتی سائنس میں اس کا قصور ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے میں جتنے بھی برحق مسالک کے لوگ، جو اپنے اپنے مسلکوں میں پیدا ہوئے، وہ عاقل بالغ ہونے کے بعد بقائمی ہوش و حواس ہی اپنے اپنے عقیدے پہ کھڑے ہیں؟ آخر یہ کیسا اتفاق ہے کہ جو بھی شخص جس بھی مسلک و مذہب میں پیدا ہورہا ہے، عاقل بالغ ہونے کے بعد بھی وہی مسلک ومذہب اس کے لیے حق و سچ کی معراج ثابت ہور ہا ہے؟ قبل از پیدائش ایک پارسی سے ایسی کیا خطا سرزد ہوئی کہ وہ غلط گھرانے میں پیدا ہوگیا، اور میری کون سی ادا کاتبِ تقدیر کو بھا گئی تھی کہ انعام کے طور پر مجھے ایک برحق گھرانہ دے دیا؟ یعنی میں تو حق اور سچ کی انگلیاں تھامے اس جہانِ خراب میں چلا آیا، اس لیے تلاش کی ضرورت ہی نہیں۔ اورسیموئیل مسیح خالی ہاتھ آیا، اس سے تلاش و دریافت کا امتحان؟ اگر میری ہی طرح وہ اپنے ماحول اور تربیت کا اسیر ہے تو کیا یہ صرف اسی کا قصور؟ جاننا چاہتا ہوں کہ مفتی تقی عثمانی صاحب اور علامہ محسن علی نجفی صاحب میں سے وہ کون سا فرد ہے جو ہوش و حواس میں ہے اور کون سا ہے فرد ہے جو حواس میں نہیں ہے؟ دونوں ہی کا دعوی ہے کہ ہم اپنے عقیدے پر بقائمی ہوش حواس کار بند ہیں، تو اب بتلایئے میں فیصلہ کیسے کروں؟

اگر میرا یا آپ کا آج مسلمان سنی دیوبندی حنفی ہونا واقعی اس لیے کمال ہے کہ ہم نے ہوش و حواس میں یہ فیصلہ کیا ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے باقی تمام مسالک کے پڑھے لکھے سمجھدار ذہین و فطین لوگوں کے حواس کو کون سی بلا چاٹ گئی ہے؟ حق و سچ کسی دوسرے ذہن پر اس درجے میں کیوں نہیں کھل رہا، جس درجے میں مجھ پر یا آپ پر کھلے جارہا ہے؟ اگر میرا اپنی فکر سے وابستہ ہونا واقعی میرا کمال ہے، تو پھر مانا جا سکتا ہے کہ کسی دوسرے کا میری مخالف فکر پر ہونا اس کا قصور ہے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ زندہ ترین سچ یہ ہے کہ عقیدہ ایک خوش گوار وراثتی جبر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

2۔ جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کو صالحیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس صلاحیت کی وجہ سے جج کا منصب دیا گیا، جو کہ فرنود عالم میں نہیں ہے۔ اگرجج بننے کے لیے اہلیت چھ کلمے اور چار قل ہوتے ہیں تو پھر اس منصب کے لیے ظہیر جمالی صاحب سے کہیں زیادہ یہ کمبخت فرنود عالم اہل ہے۔ کیونکہ فرنود عالم کو صحائف کا بیچوں بیچ جتنا یاد ہے، اس کا عشر عشیر بھی شاید جمالی صاحب کو یاد ہو۔ فرنود عالم کوتو وہ وظائف بھی ازبر کروائے گئے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ مگر استاد محترم! اس منصب کے لیے جو اہلیت و صلاحیت درکار ہے، وہ ظہیر جمالی صاحب کے مقابلے میں فرنود عالم میں بالکل صفر ہے۔ اور ہاں، پھر اس منصب کے کچھ اخلاقی تقاضے بھی ہیں۔ مثلا دیانت دار ہونا، عادل ہونا، غیر جانبدار ہونا، صادق وامین ہونا۔ فرنود عالم یہ دعوی بھی نہیں کرسکتا کہ وہ ظہیر جمالی صاحب سے زیادہ دیانت دار ہے۔ ظہیر جمالی صاحب ہی دیانت دار ہیں، مگر جمالی صاحب میں یہ دیانت اس لیے پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کلمہ گو ہیں۔ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں دیانت و صداقت کے سب سے گہرے نقوش جن قاضی القضاۃ نے چھوڑے ہیں ان کے نام جسٹس اے آر کارنیلئیس، جسٹس دراب پٹیل، اور جسٹس رانا بھگوان داس ہے۔ کوئی بتائے گا کہ ان جج صاحبان نے ایک کلیدی منصب پر فائز ہونے سے پہلے کس کو کلمہ سنایا تھا؟ اور یہ کہ کلمہ گو نہ ہونے کے باوجود کسی بھی کلمہ گو سے بہتر فرائض انہوں نے کیسے انجام دے لیے تھے؟

3۔ جج اور سپہ سالار کے منصب کے معاملے میں آئین کسی عقیدے پر اصرار نہیں کرتا۔ استاد محترم نے فرمایا ہے کہ ’کسی بھی منصب پر فائز ہوکر ملک کی خدمت کرنے کےلیے محض شہری ہونا کافی نہیں ہے۔ پیدائشی حق تو بہت دور کی بات ہے۔ دستور میں بنیادی حقوق کی فہرست میں دیکھیے۔ کہاں لکھا ہے کہ صدر یا آرمی چیف بننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے؟‘

\"constitution-of-pakistan-27-1\"

ہم نہایت عجز سے استاد محترم کی توجہ آئین کی شق 27 کے جزو نمبر 1 کی طرف دلاتے ہیں جس میں نہایت واضح الفاظ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’کسی شہری کے ساتھ جو بہ اعتباد دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر کا اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا‘۔ استاد محترم کے اپنے حکم کے مطابق، ’جب تک وہ دستوری اور قانونی شقیں ختم نہیں کی جاتیں، یہ باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ‘ سو عرض یہی ہے کہ آئین میں جو لکھا ہے، ہم اسی کی بنیاد پر ہر شہری اس پیدائشی حق کی بات کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی منصب پر فائز ہو سکتا ہے، ماسوائے تین مناصب کے جن کی آئین میں صراحت کی گئی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور جنرل ضیا الحق کی قائم کردہ وفاقی شرعی عدالت کے جج کے مناصب پر فائز ہونے کے لئے شہری کا مسلمان ہونا لازم قرار پایا ہے۔ دیگر ریاستی مناصب، بشمول اعلی عدلیہ کے جج، سروسز چیفس، گورنر، وزیراعلی، چیئرمین سینیٹ و قومی اسمبلی وغیرہ کے لئے عقیدے کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے اور آئین عقیدے سے بالاتر ہو کر ان مناسب پر تقرری کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ہم شہری کے اسی آئینی حق کا ذکر کر رہے ہیں جو استاد محترم کی نگاہ میں اسے نہیں ملنا چاہیے۔

لیکن احباب کو چونکہ اس قضیے پر تعجب ہے کہ اسلامی ملک کا لشکرِ امیر غیر مسلم کیسے ہوسکتا ہے، تو میں ضرور بتانا چاہوں گا کہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ آرمی اسلام کی بقا کے لیے نہیں، پاکستان کی بقا کے لیے اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ اپنے ملک سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے کسی خاص عقیدے سے وابستہ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ فرض کرتے ہیں یہ اسلام کا ہی کوئی خراسانی لشکر ہے تو پھر میں پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ میجر جنرل جیولین پیٹر، جو کہ مسیحی تھے، انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر میں کس جذبے اور اصول کے تحت ہندوستان کے خلاف لڑ رہے تھے؟ اوکاڑہ میں وہ کس اصول کے تحت ڈویژن کو لیڈ کررہے تھے؟ کیا یہ امیرِ لشکر نہیں تھے؟ کلمہ گو نہ ہوتے ہوئے وہ ملک کے وفادار کیسے نکلے؟ کیا فرائض کی انجام دہی میں ان کا جذبہ مسلمان افسروں سے کم تھا؟

میجر جنرل افتخار جنجوعہ، جو کہ احمدی تھے، انیس سو پینسٹھ میں رن کچھ کی ایک بریگیڈ کے امیر کی حیثیت سے جب ہندوستان سے لڑ رہے تھے، اس کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما تھا؟ انہیں فاتح رن کچھ کا لقب کیوں عطا ہوا؟ یہی وہ پہلے جرنیل ہیں جنہوں نے اکہتر میں اس ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ احمدی ہوکر بھی وہ اس ملک پر کیسے قربان ہوئے، اور یہ کہ انہیں ہلالِ جرات ایک بار بھی نہیں دوبار کس کارِ نمایاں کے اعتراف میں دیا گیا؟

لفٹننٹ جنرل عبدالعلی ملک نے، جو کہ احمدی ہی تھے، انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں چونڈہ کی 24 انفنٹری بریگیڈ کی کمان کیسے کی، محب وطن کیسے رہے؟ کیا ان کا جذبہ باقی فوجویں کے مقابلے میں کم تھا؟ کیا وفاداری کی سطح مایوس کن تھی؟

ائیر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال تو مسیحی تھے، میں حیران ہوں کہ کلمہ گو نہ ہوتے ہوئے بھی ان میں اتنی حب الوطنی کہاں سے آگئی کہ کڑے وقت میں جب سارے کلمہ گو افسران تیکنیکی مسائل کے سبب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، گورڈن ہال نے ہی مال بردار سی ون تھرٹی طیارے کو بطور بمبار استعمال کرنے کا آئیڈیا پیش کردیا۔ صرف آئیڈیا ہی پیش نہیں کیا، طیارے کو خود بمبار مشن میں پہلی بار استعمال کر کے فضاؤں و ہواؤں کو حیرت زدہ بھی کیا۔ آخر یہ غیر مسلم اس ملک کا وفادار کیسے ہوسکتا ہے، حیران ہوں۔

ائیر کموڈور نذیر لطیف تو مسیحی تھے، شجاعت کا تیسرا بڑا اعزاز کیسے لے لیا؟ ظفر احمد چوہدری تو احمدی تھے، 1972 میں فضائیہ کے لشکر امیر کیسے بنے، پاکستان کی بقا کے لیے کیسے لڑے؟ سکواڈرن لیڈر کرسٹی تو مسیحی تھے، فائرماسٹر کا رتبہ کیسے حاصل کیا؟ تمغہ جرات کیسے حاصل کر لیا؟ اکہتر کی جنگ میں شہید کیسے ہوئے؟ کس چیز پر قربان ہوئے آخر؟ کمانڈر میرون لیزلی بھی مسیحی تھے، گھمسان کا رن پڑا تو اسرائیل سے کیسے بھڑ گئے؟ اردن کا اعلی اعزاز کیسے حاصل کیا؟ کیا انیس سو اکہتر میں وہ اسلام کی بقا کے لیے شہید ہوئے؟ میجر جنرل نوئیل اسرائیل کھوکھر کس جذبے کے تحت پورے توپ خانے کے امیر ہوگئے تھے؟ منگلا چھاؤنی میں ایک لڑاکا ڈویژن کی کمان کیسے کی؟ میجر جنرل کیزاد سپاری والا تو پارسی تھے، کلمہ گو نہ ہوکر بھی بلوچ رجمنٹ کی ایک بٹالین کے امیر کیسے رہے اور اعزازات کس کارنامے پر حاصل کیے؟ پوری فہرست ہے، میں یہیں رکتا ہوں۔ رک کر یہ سوال دہراتا ہوں کہ کہ ان تمام لڑاکوں کی حب الوطنی پر ہمیں شک کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اور یہ کہ ’’اسلامی لشکر‘‘ کی گردان کرکے ہم پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم پاکستانیوں کو کیوں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تمہاری حب الوطنی ہم سے برتر کسی بھی طور نہیں ہوسکتی۔ ان غیر مسلم کماندانوں میں کون ہے جو حساس منصب پر نہ بیٹھا، اور کون ہے جس نے حساس منصب پر بیٹھ کر ملک کو نقصان پہنچایا ہو۔

4۔ جی، میں نے سپہ سالار کی اہلیت پر سوال اٹھانے کا حق ہر شہری کے لیے تسلیم کیا ہے، مگر یہ نہیں کہا کہ عقیدہ بھی کوئی اہلیت ہے۔ دیانت صداقت اور اہلیت و صلاحیت کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ جنرل نیازی، جنرل یحی خان اور جنرل ضیا کلمہ گو ہوکر بھی ہمارے لیے مشعل راہ نہیں ہیں۔ ائیر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال اور میجر جنرل افتخار جنجوعہ ہم عقیدہ نہ ہو کر بھی اپنی حب الوطنی میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ چیف جسٹس نسیم شاہ، چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب مسلمان ہوکر بھی کم از کم میرے لیے دیانت کی مثال نہیں ہیں، چیف جسٹس رانا بھگوان داس غیر مسلم ہوکر بھی مجھ طالب علم کے لیے دیانت کا ایک روش استعارہ ہیں۔ ہم جنرل مشرف صاحب پر اس لیے حرف گیر نہیں کہ وہ دعائے قنوت نہیں جانتے تھے اور جنرل راحیل شریف صاحب کا احترام اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے ہاتھ اسم اعظم لگ گیا ہے۔ ہم افتادگانِ خاک ہیں، اور ہمارے آگے دریا ہے۔ صالحیت سے نہیں، صلاحیت سے یہ دریا عبور ہوگا۔ تیراکی نے بھی اگر کلمہ پڑھ لیا تو دریا کی ہر لہر کو ہمیں خس وخشاک کی طرح بہا لے جانے کا جواز مل جائے گا۔

پسِ تحریر: جس محترم جنرل سے متعلق احمدی ہونے کی خبر گرم ہے، گوکہ وہ احمدی نہیں ہیں، مگر خوشی ہے کہ ایک بحث چل پڑی، اپنی اپنی بات کہنے کا موقع ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments