بی آر ٹی پشاور کا سفر


اپنے مقررہ میعاد سے کافی تاخیر اور موعودہ خرچ سے خاصی زیادہ رقم خرچ کرنے اور طویل انتظار کے بعد بالآخر بی آر ٹی کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

اس کے افتتاح کے موقع پر تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس بات کا اقرار کیا کہ بی آر ٹی نہ بنانے کی میری بات غلط تھی اور سابق وزیراعلی پرویز خٹک کا اس کو بنانے پر اصرار درست تھا۔ کہا جا رہا ہے سیاسی فائدے اور مزید تاخیر کی بدنامی سے بچنے کے لیے منصوبے کی تکمیل سے پہلے ہی اس پر سروس شروع کردی گئی ہے، اس کے ڈیزائن میں بنیادی خامیاں ہیں، یہ جلد خراب ہو جائے گی اور یہ خزانے پر بوجھ بن جائے گی۔

کل دوستوں نے اپنی انکھوں سے بی آر ٹی کی حقیقت دیکھنے کے لیے بی آر ٹی کی سیر کا پروگرام بنایا اور ہم پشاور چلے گئے۔ رات کے ساڑھ آٹھ بجے تھے۔ تہکال پایاں کے سٹیشن سے ہم نے ٹرانس پشاور کے بس میں چڑھنے کا فیصلہ کیا۔ کاؤنٹر پر اس وقت کافی رش تھا۔ ہمارے پاس ایک دن کے لیے کارآمد پچاس روپے کا ٹکٹ یا چند دنوں کے لیے کار آمد سو روپے کا کارڈ خریدنے کا اختیار تھا۔ ہم نے کارڈ خریدنے کا فیصلہ کیا۔

کارڈ خریدنے کے لیے کاونٹر پر موجود زنانہ افسر کو شناختی کارڈ دیا۔ ہر ایک سے نادرا ریکارڈ سے منسلک ویریفیکیشن مشین پر دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اور انگلیاں لگوائی گئیں اور ان لائن تصدیق کے بعد اپنا کارڈ ہر ایک کے حوالے کر دیا گیا۔

واک تھرو گیٹ سے بی آر ٹی پلیٹ فارم کے اندر داخل ہونے کے لیے کھڑے ہوئے تو ماسک نہ ہونے پر ہمیں واپس کر دیا گیا۔ چنانچہ فیس ماسک سب کو خرید کر لگانے پڑے۔ تب ہمیں اندر جانے دیا گیا۔ اس کے بعد ہر ایک کا بی آر ٹی کارڈ ایک دوسری مشین پر رکھا گیا۔ مشین نے اندر داخل ہونے کی اجازت دی تو باری باری ہم سب اندر چلے گئے۔

پلیٹ فارم تک پہنچنے کے لیے کئی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑا۔ بیماروں یا کمزوروں کے لیے ہموار راستہ بھی بنایا گیا ہے اور لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے اگرچہ اس وقت لفٹ کی سروس دستیاب نہیں تھی۔ اوپر پلیٹ فارم پر عوام کا جم غفیر موجود تھا۔ زیادہ تر لوگ کہیں آجا رہے تھے جب کہ کچھ پلیٹ فارم میں بیٹھے تھے یا چکر لگارہے تھے اور تصاویر اتار رہے تھے۔ پلیٹ فارم وسیع، خوبصورت اور فی الحال صاف ستھرے تھے۔ عورتوں اور مردوں کے لیے دونوں طرف گاڑیوں میں چڑھنے یا اترنے کے لیے جدا دروازے مختص کیے گئے ہیں۔ گاڑی کا انتظار دو سے تین منٹ تک کرنا پڑتا ہے لیکن بیٹھنے کے لیے دونوں اصناف کے لیے سٹیل کی کرسیاں لگائی گئی ہیں۔

بتایا گیا کہ فی الحال ایک سو پچاس گاڑیاں عوام کو سروس مہیا کر رہی ہیں۔ باقی گاڑیاں بھی موجود ہیں اور ضرورت پڑنے پر ٹریک پر موجود ہوں گی۔

پلیٹ فارم میں روشنی کا مناسب جبکہ پنکھوں کا کچھ حد تک انتظام کیا گیا ہے۔ جا بجا معلومات والے پوسٹر اور فلیکسز لگائے گئے ہیں۔ سیکورٹی کا بھی مناسب بندوبست موجود ہے۔ گاڑیوں کی آمد ورفت کے بارے میں تازہ ترین معلومات سکرین پر دستیاب ہیں۔

ہم تہکال پایاں سے مغرب کی جانب حیات آباد پشاور یا پھر مشرقی سمت چمکنی پشاور تک جا سکتے تھے۔ وقت کی قلت کے پیش نظر ہم نے حیات آباد والی گاڑی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک منٹ کے بعد ایک گاڑی آئی لیکن اس میں کھڑے ہونے کی بھی گنجائش نہیں تھی چنانچہ دو منٹ بعد آنے والی گاڑی میں چڑھ گئے۔ یہ گاڑی بھی لبالب بھری ہوئی تھی۔ بمشکل دروازہ بند ہو سکا اور گاڑی روانہ ہوگئی۔ ہر گاڑی میں عورتوں کے لیے آگے حصے میں چند نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ پیچھے مردوں کی نشستیں ہوتی ہیں۔

ٹرانس پشاور کی ہر گاڑی خوب صورت اور ایئر کنڈیشنڈ ہے اور اس میں مفت وائی فائی اور موبائل چارجنگ کی سہولت موجود ہے۔ جدید ترین گلوبل پوزیشنگ سسٹم کے مطابق ہر گاڑی کی تازہ پوزیشن، پیچھے رہ جانے اور آگے آنے والے سٹیشنز، منزل اور بقیہ سفر کی رئیل ٹائم معلومات دیکھی جاسکتی ہیں۔

گاڑی میں درجنوں افراد درمیاں میں کھڑے تھے۔ ان میں بچے، جواں اور ادھیڑ عمر کے افراد سبھی موجود تھے۔ بہت زیادہ بھیڑ کے باوجود گاڑی کا درجہ حرارت مناسب حد تک ٹھنڈا تھا۔

ایک شخص نے اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے بتایا کہ روٹ پر وقت کچھ زیادہ لیا جا رہا ہے۔ ”ہم چمکنی سے 8 بجے گاڑی میں بیٹھے۔ اب آٹھ بج کر چالیس منٹ ہیں۔ ابھی بیس منٹ مزید لگیں گے۔ چمکنی سے حیات آباد تک پورے روٹ پر 26 سٹیشنز ہیں۔ گاڑی ہر سٹیشن پر آدھا منٹ لیتی ہے یوں تیرہ منٹ تو یہ ہوگئے۔ ویسے یہ روٹ چمکنی سے حیات آباد تک آدھے گھنٹے میں طے ہو تو مناسب رہے گا“ ۔

ایک اور آدمی کہہ رہا تھا۔ ”اے سی بھی ہے اور وائی فائی بھی۔ کرایہ کم ہے اور سہولت زیادہ۔ ایک گاڑی میں جائیں پھر وہاں سے دوسری طرف کی واپسی والی گاڑی میں بیٹھیں، سارا دن چکرلگاتے رہیں اور مزے کریں۔ نہ گرمی نہ انٹرنیٹ کا خرچہ۔“

ایک دوسرا مسافر کہہ رہا تھا۔ ”میں مردان سے اپنی گاڑی میں آتا تھا۔ اب مردان سے پشاور چمکنی تک ہائی ایس میں آتا ہوں اور وہاں سے ٹرانس پشاور کے بس میں سوار ہوکر تہکال دس پندرہ منٹ میں پہنچ جاتا ہوں۔ یہ بہت بڑی سہولت ہے۔ اگرچہ یہ کافی تاخیر سے شروع ہوا مگر دیر آید درست آید۔“

بچے بھی موجود تھے۔ وہ حیرت اور دلچسپی کے ساتھ نیچے گزرنے والی عام گاڑیوں اور کھڑے لوگوں کو دیکھ رہے تھے اور ہاتھ ہلا ہلا کر سلام کر رہے تھے۔

گاڑی مناسب رفتار کے ساتھ ہموار جارہی تھی۔ نہ ہچکولے کھا رہی تھی اور نہ گاڑی کے روٹ پر کسی اور گاڑی یا انسان کے سامنے آنے کا خدشہ تھا۔ سڑک بھی ہموار تھی اور جیسا کہ خدشہ تھا اس میں کوئی دراڑ یا اونچ نیچ نہیں تھی جو گاڑی کے توازن کو خراب کرتی۔ ہمارے روٹ پر ڈیزائن میں کوئی نقص نظر آیا نہ گاڑی کو چلنے یا مڑنے میں کوئی مشکل پیش آئی۔

ایک مسافر کہہ رہا تھا باقی روٹ پر بھی کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی ہے۔ حیات آباد پلیٹ فارم پر گاڑی سے اترے۔ تھوڑے آرام کے بعد وہاں سے واپسی کی گاڑی میں چڑھ گئے۔ بیٹھنے کی گنجائش اب بھی نہیں تھی چنانچہ کھڑے رہے۔ واپس تہکال کے پلیٹ فارم پہنچے۔ اب بھی بچے، نوجوان اور بڑی عمر کے افراد پلیٹ فارم پر مٹر گشت کر رہے تھے۔ پلیٹ فارم پر لوگوں کی کثیر تعداد اور جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پشاور کے عوام کے لیے یہ لطف اٹھانے اور سیر و تفریح کا ایک زبردست ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ لوگ خوش پیں۔

ایک جگہ ایک بینر پرعمران خان کی تصویر نظر آئی تو ایک دوست نے بے ساختہ اس کے اوپر بازو رکھا کہ جیسے وہ خان صاحب کے کندھے کے اوپر پیار سے بازو رکھنے کا متمنی تھا۔ پلیٹ فارم سے نیچے اترے۔ باہر آنے سے پہلے کارڈ مشین پر رکھا تو آپریٹر نے اطلاع دی کہ آپ کے کارڈ میں نوے روپے باقی ہیں۔ گویا دونوں طرف کا تقریباً تیس کلومیٹر کا فاصلہ دس روپے میں طے ہوا تھا۔

ایک دوست بے ساختہ بولا۔ ”شکریہ عمران خان، شکریہ پرویز خٹک۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).