سعودی عرب نے ہمیں فارغ کر دیا


گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے عوام اور خواص یکساں طور پر ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یوں سمجھیں کہ پورے ملک کے گلی کوچوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک کہرام مچا ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے کسی زمانے میں پوری امت مسلمہ کا دشمن سمجھے جانے والے ملک اسرائیل سے علانیہ پینگیں بڑھانا یقیناً ہم جیسی اخوت اسلامی کی پینک میں مدہوش جذباتی قوم کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے۔ یہ پیش رفت اس لیے زیادہ سنسنی خیز سمجھی جارہی ہے کہ سب ہی جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے حکمران سعودی عرب کی آنکھ کے اشارے کے بغیر ایسی کسی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

چنانچہ عالمی سیاست کی بساط پر گہری نظر رکھنے والے اکثر ماہرین کی رائے میں متحدہ عرب امارات کا یہ فیصلہ دراصل سعودی عرب کے پالا بدلنے کی تیاریوں کا ایک حصہ ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے بعد خطہ عرب اور افریقہ کے دیگر کئی مریدان سعودیہ ریاستیں بھی بھی باری باری اسرائیل کی دوپٹا بدل بہنیں بننے کے لیے قطار باندھے کھڑی ہیں۔ سعودی عرب خود شاید تاخیر سے اس طرح کا کوئی باضابطہ اعلان کرے یا اس کی زحمت کیے بغیر ہی اسرائیل سے بغل گیر ہو جائے۔

عالمی سیاسی منظر میں اس انقلابی تبدیلی یعنی سعودی عرب کے اسرائیل کی طرف جھکاؤ کی یوں تو بہت سی تاویلات و وجوہ تلاش کی جاسکتی ہیں، جن میں ایک سب سے بڑی وجہ تو سب جانتے ہیں، یہی ہے کہ یہ دونوں ممالک دنیا کی واحد سپرپاور امریکا کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں یعنی معرفت کی زبان میں آپس میں پیربھائی ہیں اور جیسا کہ قدیم مقولہ ہے، دوست کا دوست، دوست ہوتا ہے، ان دونوں کا باہمی اختلافات فراموش کرکے بالآخر ایک ہی دسترخوان پر یک جا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں عشروں تک اک دوجے کے خون کی پیاسی ان دونوں ریاستوں کی محبتیں بڑھنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ادراک ہوچکا ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے کو کچلیاں دکھانے کے بجائے اپنے مشترکہ دشمن یعنی ایران کے خلاف شانہ بہ شانہ کھڑے ہوجانا چاہیے۔

ایران اور عرب قوم کی نسلی برتری اور تعصب پر مبنی مخاصمت ہزارہاسال پرانی ہے جسے دین اسلام سے وابستگی بھی مدفون نہیں کرسکی۔ تاہم تین عشرے پہلے تک یہ چپقلش سماجی بے مہری اور سیاسی بے رخی تک محدود تھی۔ دونوں فریق روکھے سوکھے ہی سہی، سفارتی اور ثقافتی رشتے بھی نبھاتے تھے۔ لیکن پھر عراق اور ایران کی جنگ نے دبی ہوئی چنگاریوں کو یک لخت شعلوں میں بدل دیا اور پھر یہ آگ ایسی بھڑکی کہ اس جنگ کے بعد بھی ٹھنڈی نہ ہوسکی۔

ایرانی انقلاب کے نتیجے میں نسلی منافرت کے زہریلے مشروب میں فرقہ وارانہ تعصب کی کڑواہٹ بھی گھل گئی جو رفتہ رفتہ پورے عالم اسلام کے رگ وپے میں اترگئی۔ تاہم، آپ کو اختلاف کا حق ہے، سعودی عرب اور ایران کے مابین کھلی دشمنی کا آغاز پہلے عرب خطے میں امریکی مداخلت اور عراق پر غاصبانہ قبضے اور پھر بہار عرب کے نتیجے میں مختلف عرب ریاستوں میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد ہوا جس کے دوران عراق میں سنی عقیدہ حکمرانوں کی جگہ ایران کی حلیف شیعہ حکومت قائم ہوگئی اور دیگر عرب ریاستوں میں حوثی باغیوں جیسے مسلح گروہ اتنا زور پکڑگئے کہ مملکت سعودیہ کے لیے براہ راست خطرہ بن گئے۔

سعودی عرب کے عین پہلو میں واقع یمن میں ہونے والی خوں ریز جنگ نے اس کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ مجھ ناچیز کی رائے میں یہی وہ مرحلہ تھا جب سعودی عرب اور اس کی حلیف ریاستوں نے اپنی حکمت عملی میں انقلابی تبدیلی کا فیصلہ کیا اور اسرائیل سے دشمنی کی جگہ دوستی کا رشتہ استوار کرنے کی راہ پر چلنے کا ارادہ کر لیا۔

اس فیصلے میں پاکستان کا بھی بنیادی کردار رہا۔ عسکری اعتبار سے دنیا کا طاقت ور ترین اسلامی ملک، اور خصوصاً ایک ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستان کو سعودی عرب نے ہمیشہ ایک قابل اعتماد محافظ سمجھا ہے اور پاکستان بھی ہمیشہ سے سعودی عرب کی طرف اٹھنے والی کسی میلی آنکھ کو نکال پھینکنے کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ لیکن یمن میں جاری خانہ جنگی کو اپنی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ مان کر جب سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی مداخلت کا دعویٰ کیا تو اسے کورا جواب ملا۔ غالباً یہی وہ مرحلہ تھا کہ سعودی عرب نے اپنی سلامتی کے لیے پاکستان پر انحصار ترک کر کے نئے حلیف کی تلاش شروع کی۔

شاہ سلیمان کی غیر علانیہ گوشہ نشینی اور ولی عہد محمد سلمان کے زمام اقتدار سنبھالنے سے معاملات تیزی سے فیصلہ کن رخ اختیار کرگئے۔ سعودی عرب کے گرد صدیوں سے حمائل اسلام کا نورانی ہالہ لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا اور سعودی عرب کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے رنگ ڈھنگ سے ہم آہنگ کرنے کی برق رفتار کوششیں شروع ہوئیں۔ اس تمام عرصے میں امریکا پہلے ہی سعودی حکمرانوں کی گردن کا ہار (پھندا) بن چکا تھا اور اس کی مرضی کے بغیر اس خطے میں پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ ظاہر ہے، ایسے میں ایران سے لاحق کچھ حقیقی اور کچھ فرضی خوف سے سہمے سعودی حکمرانوں کو امریکا کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ دوستی بڑھانے کی ترغیب دی گئی تو وہ کیسے انکار کر سکتے تھے۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ اسرائیل سے دشمنی کی بنیادی وجہ یعنی فلسطین میں بھی سعودی حکمرانوں کے ناپسندیدہ ٹولوں کا غلبہ ہے۔

اگر ذرا سی توجہ سے دیکھا جائے تو صورت حال کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں۔ سعودی حکمران اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اپنی سلامتی کے لیے پاکستان کی طرف دیکھنا بے سود ہے۔ اگر ایران سے کبھی جنگ کی صورت حال درپیش ہوئی تو پاکستان غیرجانب دار رہے گا، چنانچہ بہتر یہ ہے کہ ایران کے کٹر دشمن اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملایا جائے۔ وہی فلسفہ دشمن کا دشمن، دوست۔ پاکستان کی طرح اسرائیل بھی تباہ کن عسکری طاقت ہے جس کے پاس وافر تعداد میں جوہری ہتھیار بھی ہیں۔

کبھی ایران کی طرف سے حملے کا خطرہ درپیش ہوا تو اسرائیل کو تو مدد کے لیے بھی پکارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جو پہلے ہی ایران کو کاری ضرب لگانے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے، اور ایسی کسی سنگین صورت حال میں دونوں ممالک کو اپنے سرپرست اعلیٰ امریکا کی بھی غیرمشروط مدد حاصل ہوگی۔ ویسے بھی پاکستان ترکی سے گہری یاری لگانے کے باعث بھی سعودی حکمرانوں کی نظر میں ناقابل قبول ہوچکا ہے۔ تو میرے پاکستانی بھائیو، اچھی طرح سمجھ لو۔

سعودی عرب نے ہمیں اپنے چوکی دار کی نوکری سے نکال باہر کیا ہے، کیوں کہ اسے اپنی دہلیز پر ایک زیادہ خوں خوار کتا پہرہ دینے کے لیے دست یاب ہوگیا ہے۔ چنانچہ شاہ محمود قریشی اوقات سے بڑھ کر بولتا یا نہ بولتا، ہم رفتہ رفتہ مفت اور ادھار تیل کی عیاشیوں اور اربوں ریال کی خیرات سے اب زیادہ دن مستفیض نہیں ہو سکیں گے۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).