ڈاکٹر یوسف خشک۔۔۔ سنجیدہ فکر اور مستعد منتظم اور محقق


صدرنشین اکادمی ادبیات پاکستان ’ڈاکٹر یوسف خشک صاحب کا شمار اردو دنیا کی مقبول و معروف شخصیات میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک کی علمی و ادبی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ صدر شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی‘ خیرپور سندھ ’ڈین فیکلٹی آف آرٹس اور اسی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کے طور پر ڈاکٹر یوسف خشک کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آج سے قریباً چودہ برس قبل جب پاکستانی جامعات میں اردو کے تحقیقی مجلوں کی اشاعت پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی‘ ڈاکٹر یوسف خشک کی توجہ اور ان تھک محنت کی بدولت ”الماس“ کی باقاعدہ اشاعت ممکن ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ نمایاں تحقیقی مجلوں میں ہونے لگا۔

مجھے یاد ہے جب میں نے ”الماس“ میں اشاعت کے لیے اپنا پہلا تحقیقی مقالہ ارسال کیا تو ڈاکٹر صاحب نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے اپنے مجلے میں شائع کیا۔ ہمارے ہاں ایک رجحان فروغ پاچکا ہے کہ جب تک آپ کے پاس کوئی مضبوط حوالہ نہ ہو جامعات کے تحقیقی مجلوں میں مضامین کی اشاعت جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتی ہے لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ڈاکٹر یوسف خشک نے میرے تحقیقی مضامین کی بنیاد پر مجھے ”الماس“ کے مضمون نگاروں میں شامل کیا اور پھر اسی حوصلہ افزائی کے سبب میرے مضامین ایک تسلسل کے ساتھ شائع ہوئے یقیناً اس اشاعت میں میری تحریروں کا بھی عمل دخل ہوگا لیکن مجھ جیسے نوواردان ادب کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے ڈاکٹر یوسف خشک کی علمی و ادبی قامت اور وقار میں ہمیشہ اضافہ ہی کیا ہے۔

2007ء میں شعبہ اردو گونمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر ہوسف خشک نے ملٹی میڈیا کے ذریعے اپنی نگارشات پیش کیں۔ یہ وہ دور تھا جب ہماری جامعات کے اساتذہ کی اکثرہت کمپیوٹر کے استعمال سے ناواقف تھی ’ملٹی میڈیا پر معروضات پیش کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔ 2008ء میں شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی‘ خیرپور سندھ کی جانب سے ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

جہاں ڈاکٹر یوسف خشک اور ڈاکٹر صوفیہ یوسف کی اپنائیت اور انتظامی صلاحیتوں نے شرکائے کانفرنس کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ دن کے وقت مقالات کے بھرپور سیشن اور پھر شام کو محفل مشاعرہ اور سندھی ثقافت پر مبنی پروگرام آج تک میری یاد میں تازہ ہیں۔ کانفرنس میں اندرون اور بیرون ملک سے مندوبین کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور جس حسن خوبی کے ساتھ ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کے معاونین نے کانفرنس کے انتظام و انصرام کا اہتمام کیا وہ قابل ستائش تھا۔

اس کے بعد ”الماس“ اور شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی سندھ نے ترقی کا سفر نہایت تیزی سے طے کیا اور یہ کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ اس کے پس پشت ڈاکٹر یوسف خشک کی قائدانہ صلاحیتیں اور اردو کے ساتھ ان کی سنجیدہ وابستگی تھی۔ آج جب وہ بہ حیثیت صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان جشن آزادی کے حوالے سے ہفت روزہ تقریبات ’مذاکرات اور آن لائن مشاعروں کا انعقاد کروارہے ہیں تو کسی حیرت کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ ان جیسے مستعد رہنما سے اپنے ادارے کو اسی خوش اسلوبی سے چلانے کی توقع ہے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اشتراک سے جو پروگرام ترتیب دیے گئے‘ جس خوش اسلوبی اور کامیابی سے ان کا انعقاد ممکن ہوا اور جس سہولت سے اپنے گھروں میں بیٹھے اردو سے دلچسپی رکھنے والے افراد نے ان سے استفادہ کیا ’وہ سب قابل ستائش ہے۔ ان آن لائن تقریبات کی بدولت نوجوان نسل کرونا کی وبا اور خدشات کے باوجود‘ اپنے ان اساتذہ سے فیض یاب ہوئی جن کی کتب تو لائبریریوں میں موجود تھیں لیکن جن سے مکالمے کی سہولت میسر نہیں تھی۔

ڈاکٹر صاحب جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کرنے والے اردو محققین کے ہراول دستے کے نمایاں رکن ہیں۔ دیگر ممالک کے اسفار نے ان کی فکر کو جو کشادگی اور وسعت عطا کی ہے وہ اردو کی ترویج کے ضمن میں ان کی عملی کاوشوں سے عیاں ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک کے لیے دعا گو ہوں کہ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم پر اسی جاں فشانی سے تمام پاکستانی اہل علم و فن کو اکٹھا کرتے رہیں ان کی کامیابی دراصل اردو اور تمام پاکستانی زبانوں کی کامیابی ہے۔ دعاہے کہ فکروفن کا یہ سفر اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہے کہ ہمیں زبان و ادب کی ترقی اور فروغ کے لیے ڈاکٹر یوسف خشک جیسے کہنہ مشق اہل علم و ادب کی بہت ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).