عورت کے معاملے میں دکھتی رگ


عورت سو سال سے زائد عرصے سے اپنی بقا، اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔ ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے جو پہلے سے ہی اس کے ہیں لیکن ان کی ادائیگی میں بہت کمیاں ہیں۔ لیکن اب امید نظر آتی ہے کہ کم از کم این جیو اوز اور ایلیٹ کلاس کی کچھ بگڑی اور سازشی خواتین (معافی چاہتی ہوں پر جو سچ ہے ) کو نکال کر خواتین کی کافی تعداد ہے جو اپنے حقوق کے لیے بولنے اور غلط فعل کی تردید کرنے کی جرات کرنے کے قابل ہو گئی ہیں۔ میری تحریر کا موضوع آج عورت نہیں مرد ہے۔

اسلام نے عورت کو اس کا مقام دیا اس کے حقوق مختص کیے لیکن مرد کو اس پر برتر بنایا۔ اس کا مقام برتر ہی ہے چاہے کوئی چیخے، روئے یا اسلام کو برا بھلا کہے۔ مرد اور عورت کبھی برابر نہیں تھے نہ ہو سکتے ہیں وہ صرف حقوق ہیں جو دونوں کے برابر ہیں۔ اللہ نے کسی کی بھی حق تلفی یا زیادتی کا حکم نہیں دیا۔ نہ ہی یہ کہا کہ ایک دوسرے کو کم تر سمجھا جائے۔ مرد اور عورت ایک نہیں دو سیڑھیاں ہیں۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی مرد کی مرد کے حقوق کی۔ کبھی سنا ہے مرد کے حقوق؟ نہیں! کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ان کو خوش رکھنا، ان کے کپڑے دھونا، استری کرنا، کھانا وقت سے دینا اور ایسے ہی کچھ روزمرہ کے کام بس ختم! یہی تو ہوتے ہیں مرد کے حقوق۔

اصل میں تو مرد خود ہی اپنے حقوق سے بہت غافل ہے اور اس پر بالکل بات ہی نہیں کرتا۔ مرد کی پہنچ بس ایک اچھی، فرمان بردار عورت اور اچھا رزق کمانے تک ہی رہ گئی ہے۔ اسے اور کسی چیز کا ہوش یا تمیز ہی نہیں رہی۔ البتہ ”میرے پاس تم ہو“ جیسے ڈرامے کے ان ائر ہوتے ہی ان کے سارے دکھ امڈ آتے ہیں اور پھر وہی عورت اف!

مرد کے اور بھی حقوق ہیں جیسا کہ وہ باپ جس نے اولاد کو پیدا کیا، ان کی پرورش کا سامان کیا اور بڑھاپے میں قدم رکھتے ہی اسے اولاد کے سلوک کی فکریں پڑ گئیں۔ ساری جائیداد دے کر بھی خدمت نہ کروا سکا حالانکہ اصل ورثہ تو وہ تربیت تھی جو اس نے آپ کی کی ہے۔ عورت رو کر واویلا مچا کر اولاد سے شکوہ کر لیتی ہے لیکن مرد اتنا کھل کر اظہار نہیں کر پاتا۔ وہ کہتا ہے سب کی اولادیں ایسی ہی ہیں ہمارے ساتھ کچھ نیا نہیں ہو رہا۔

بھائی کے بھی کچھ حقوق ہیں جو اپنی بہن کو باہر گھومنے پھرنے، آگے پڑھنے کی اجازت دیتا ہے۔ جو یہ بھی جانتا ہے کہ باہر عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے چاہے با پردہ ہو یا بے پردہ، کیونکہ وہ بھی اسی معاشرے کا اک مرد ہے لیکن وہ اپنے بہن پر بھروسا کرتا ہے، اسے آزادی دیتا ہے۔ اس کا بھی حق ہے کہ وہ بہن اس سے پیار کرے، اس کی عزت کرے، اس کے گھر بنانے میں مدد دے نہ کے بگاڑنے میں۔ اس بھائی کا حق ہے کہ وہ اپنی بہن پر کیے گئے بھروسے پر فخر کر سکے۔

اس خاوند کے بھی بہت حقوق ہیں جو ایک انجان لڑکی کو رشتہ ازدواج میں باندھ کر اپنی تجوری کی ساری چابیاں پکڑا دیتا ہے۔ اس کے حوالے اپنی عزت اپنی نسل کی تر بیت سونپتا ہے۔ نصیب صرف خواتین کے ہی نہیں مردوں کے بھی برے نکل آئیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ عورت اپنے برے نصیبوں سے لڑ سکتی ہے۔ مردوں کی ایسے حالات سے لڑنے کی طاقت عورتوں سے کافی کم ہے۔ وہ ایسے حالات کا سامنا کرتے کرتے جلد ہی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس کا حق ہے کہ بے روزگاری کو اس کی کمزوری کا لیبل نہ بنا دیا جائے۔ اس کا حق ہے کہ بیوی ہر حالات میں اس کے ساتھ کھڑی رہے۔ اس کا حق ہے کہ بیوی ایسے حالات نہ پیدا کرے جہاں ایک طرف اس کے جان سے پیارے ماں باپ اور بہن بھائی ہوں اور ایک طرف اس کا دل اس کی بیوی ہو۔ یہ اس کا حق ہے کہ اس کو ذہنی سکون دیا جائے۔

اور ایسے بہت سے حقوق ہیں جو شاید میں عورت ہوکر بیان نہ کر پاؤں اور مرد خود بہتر بیان کر سکیں۔ بات بس یہ ہے کہ مرد کو دیوار چین نہ سمجھ لیا جائے۔ وہ بھی ایک عام انسان ہے اس کا کام اپنی عورت کی حفاظت کرنا، اسے خوش رکھنا، اس کی خواہشات کو پورا کرنا ضرور ہے لیکن اس کام میں اس کے لیے آسانی پیدا کی جائے۔

اور جو آج کل ان کی دکھتی رگ بن گئی ہے نہ کہ عورت زیادہ دھوکہ باز ہو گئی ہے تو بات دراصل یہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ برا رویہ رکھتا ہے، اس کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے تب خمیازہ فوراً اس کی بہن ادا کرتی ہے (مکافات عمل) ۔ اب زمانے نے نئی روش اختیار کر لی ہے جو صدیوں سے عورت کو بے وقوف بناتے آرہے تھے اب وقت ہے کہ وہ مکافات عمل کا سامنا کریں اور اس صورت میں عورت کا کردار زیر بحث نہ ہی لایا جائے تو بہتر ہے کیونکہ کبھی کبھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ سامنے والا قصور وار ہے خود کو پرکھنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).