آزاد ہو ا تھا دیس مگر۔۔۔


برسوں پہلے دور سر زمین ہمالہ کے دامن میں شہید ٹیپو سلطان کے مقدس لہو سے سرخ سرخ پھول کھلے تھے۔ ٹھیک وہیں سے گلستان پاکستان کی مہک محسوس ہو نے لگی تھی، اس زمانے میں پاکستان کے کئی نام تھے، ٹیپو سلطان کا سرنگا پٹم پاکستان، سراج الدولہ کا میدان پلاسی پاکستان، بہارد شاہ ظفر کا زندان پاکستان، سر سید کی درسگاہ علی گڑھ پاکستان، حالی کی مسدس پاکستان، محمد علی کا جوہر کا ہمدرد پاکستان، اقبال کا خواب پاکستان، بہادر یار جنگ کی آواز کا شعلہ پاکستان۔

ہندوستان کے سیاسی اندھیرے میں مسلمانوں کے اقتدار کا پہلاچراغ ٹیپو سلطان شہید کے لہو سے جلا اور اس چراغ کے اجالے میں سر سید احمد خان سے اقبال تک، اقبال سے بہادر یار جنگ تک، اور بہادر یار جنگ سے قائد اعظم تک سب ان محسن رہنماؤں کے قدموں سے مسلمانوں کے اقتدار اعلی کا ایک نیا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا اور بلآخر جب یہ راستہ بحرہ عرب کے ساحلی شہر کراچی تک پہنچ گیا تو آدھی رات کو اچانک ساری دنیا پاکستان زندہ باد کے گرجدار نعروں سے گونج اٹھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آزادی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر ادا کرنا سب سے بڑی سعادت ہے۔ شکران نعمت دراصل نعمت کی فراوانی کا سبب ہوا کرتا ہے اور کفران نعمت، نعمت کے زوال کا با عث بنتا ہے۔ شکران نعمت آئین حق کی پا بندی کا نام ہے۔ اگر آئین کی پابند ی سے ہم آزاد ہیں تو یہ آزادی نہیں بلکہ بر بادی کی طرف ہمارے بڑھتے ہو ئے قدم ہو ں گے۔ جن کا نتیجہ ابدی ہلاکت اور دائمی خسران کی شکل میں نمو دار ہوتا ہے۔ آج اگر ہم اپنا اپنا محاسبہ کریں تو ہم نے آزادی کی نعمت کا شکر کہاں تک ادا کیا ہے؟

اور خدا اور خلق خدا سے جو وعدے کیے تھے ان کو کہاں تک پورا کیا ہے؟ ہم نے نعرہ لگا یا تھا کہ ہم پاکستان میں قرآن کا قانون جاری کریں گے۔ حضور رحمت عالم کی سنت کی روشنی میں زندگی کی راہ طے کریں گے۔ نیکی کا علم بلند کریں گے اور بدی کو سر نگوں کر کے چھوڑیں گے۔ گناہوں کی اندھیری رات میں نیکی کے فانوس روشن کریں گے اور شب تیرہ کی تیرگی کا جنازہ نکال کر دم لیں گے۔ جبر و استبداد کی کالی گھٹائیں چھٹ جائیں گی اور عدل و انصاف کا قاضی محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کر دے گا۔

غربت کے مہیب سائے ر خصت ہو جائیں گے اور خوش حالی اور فارغ البالی کا آفتاب طلوع ہو کر نحوستوں کا سینہ چیر کر رکھ دے گا۔ سرمایہ داری کی توند میں سے غریبوں کا پیا لہو نچوڑ لیا جائے گا اور فلاکت زدہ انسان امن و عافیت کے گہوارے میں خوشی کے نغمے گاتے ہوئے زندگی بسر کریں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہم نے اپنی آزادی کو اپنے کاندھوں پر اٹھا یا اور قبرستان میں دفن کر آئے۔

سب سے پہلا وعدہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ تھا ہم نے اس کو جھٹلایا اس طرح کہ نفسانی خواہشات اور سلفی جذبات کو خدا بنا کر سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی طر ح اسے پوجنا شروع کر دیا۔ ایک عرصے سے دستور خدا وندی پھانسی کی کال کو ٹھڑی میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے، اس کو پھانسی پر چڑھانا ہماری منافقانہ فطرت کے بس کا روگ نہیں اور اسے آزادی سے بہرہ ور کر کے اقتداء پر بٹھانا ہمارے عیش پرست نفس کو گوارا نہیں۔

سرمایہ داری کا استیصال کرنے کی بجائے ہماری قوم میں لاکھوں سرمایہ دار پیدا ہو گئے جو کہ خو نخوار بھیڑیوں کی طرح اپنی ہی قوم کا خون چوس چوس کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں اور استسقا ء کے مریض کی طرح کبھی سیر ہی نہیں ہوتے۔ انسان کو انسان کے خون سے نہلایا جا رہا ہے ظلم و بربریت کا دور دورہ ہے۔ عصمتوں کے آبگینے سر بازار پاش ہو رہے ہیں۔ غریب ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہے انسانیت دم تو ڑ رہی ہے اور خون کے آنسو رو رہی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ بیرونی طاقتوں نے باندھ کر رکھے ہیں۔

آزاد ہوا تھا دیس مگر
ہم آج تلک آزاد نہیں
یہاں چور لٹیرے قابض ہیں
اور خلق خدا کا راج نہیں
اب نصف صدی کے پار کھڑے
اک سوچ میں ہیں، یاں اہل وطن
نسلوں کی اس فرمانبرداری میں
کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟

ہم آزاد تو ہوئے تھے مگر۔ ۔ ۔ ہم اپنی اس آزادی سے بد گمان ہو گئے۔ وہ قوم جو راج کماری کی ترائیوں سے خیبر کی بلندیوں میں کلمہ طیبہ کے مر کز نور تلے جمع ہو کر وقت کے سب سے بڑے فرعون سے ٹکرا گئی تھی، تعصبات کی ظلمتوں میں کھو گئی۔ راہبر راہزن بن جائیں تو جادہ حق کے مسافروں کی منزل سرابوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ ہم مسلمان نہ رہے بلکہ پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سندھی کہلانے میں فخر محسوس کر نے لگے۔ ہم فرقہ واریت اور عصبیت کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے گریبان نو چنے لگے۔ غرض جس پہلو بھی دیکھا جائے ہماری معاشرت، ہماری معیشت، تہذیب و تمدن سب کے سب چوپٹ ہو چکے ہیں اور اب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہم سارے وعدے فراموش کر چکے ہیں۔ سوچئے اور غور کیجیے کہ اس روش کا انجام کیا ہو گا۔۔۔۔؟

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).