قوموں کے عروج و زوال کے نشانات


خبر آئی کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ یعنی بقول سلیم احمد،
کہاں تک ہوگی غم کی پاسداری
لہو اپنا بھلا کب تک پیئیں گے؟
کئے تھے جب کسی سے عہد و پیماں
یہ اندازہ نہ تھا اتنا جیئیں گے
یا پھر یوں کریے کہ علامہ کے شعر کے ایک مصرعے میں تھوڑا تصرف کرلیتے ہیں،

حمیت نام تھا جس کا گئی ’امارات‘ کے گھر سے

میں شاعر نہیں اس لیے میرے شعری تصرف میں بھی وزن نہیں۔ بس میرا ہی وزن ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے ماشاء اللہ۔ مگر متحدہ عرب امارات کی اس بے حمیتی پر مجھے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ اصولی موقف کے لئے قوموں اور ملکوں کو ریڑھ کی ہڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ متحدہ عرب امارت تو بس منچلی لڑکیوں کے گروپ کی سب سے ’تیز‘ لڑکی ہے۔ دل تو ساری عرب ’دلرباؤں‘ کا نیتن یاہو کے ساتھ ڈانس کرنے کا چاہ ہی رہا ہے۔ مگر عربوں کی قدیم تاریخ تو ایفائے عہد اور غیرت و جرات کی تاریخ ہے۔  پھر یہ بے اصولی اور لجلجا پن کیسے؟ کیوں آخر؟ شاید وجہ یہ ہے کہ If you cant beat them, join them۔

یعنی اپنی افواج اور قوت سے کلی مایوسی ہے۔ بس اب اکتفا ہے تو معروضیت پر۔ اصول و خواب ممنوع ہیں۔ خیر اسرائیل تو بڑی طاقت ہے، ایک اور خبر سنئے۔ چند سال قبل ایک خبر پڑھی کہ متحدہ عرب امارات کی افواج بڑی تیزی سے یمن سے نکل رہی ہیں۔ یعنی یمن کی جنگ عرب امارات کے بس کی بات نہیں۔ چلئے عرب امارات کون سا امریکا ہے؟ مگر اتنے بڑے اور قوی سعودی عرب سے بھی ننھا سا یمن نہیں سنبھل رہا۔ تقریباً ایک صدی کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے عرب سورما میدان جنگ میں کچھ خاص کر نہیں پاتے۔

عرب اسرائیل جنگیں کس طرح ذلت کا نشان بنیں سب ہی جانتے ہیں مگر ایران تو 80 کی دہائی میں امریکا کا اتحادی بھی نہیں تھا مگر صدام کی افواج محض کرم شہر تک فتح کر کے پلٹ آئی اور پھر برسوں تک دفاعی جنگ لڑتی رہی۔ صدام صاحب کی افواج ایک ماہ بھی امریکی حملے کا مقابلہ نہ کر پائیں۔ چلئے امریکا کی جنگی قوت بہت تھی مگر یہ عرب افواج تو کرد ’پیش مرگہ‘ کا بھی مقابلہ نہیں کر پائیں۔ 100 سال قبل جب عثمانی افواج بڑی جاں فشانی سے حرمین کا دفاع کر رہی تھیں، تب بھی عربوں سے ان کا مقابلہ نہ ہو پاتا تھا۔ برطانویوں نے اپنے مقبوضات سے افواج بھیجی تھیں تو کہیں جا کر عثمانی حکومت ختم ہو پائی۔

کوئی یہاں تک کی گفتگو کو پڑھ کر ہم کو 2006 ء کی حزب اللہ کی اسرائیل پر فتح کا حوالے دے سکتا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ اسرائیل نے جب لبنان پر حملہ کیا تو وہاں کی تمام فوج، جی ہاں تمام فوج، ملک سے فرار ہو گئی اور اسرائیل کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا۔ ایسے میں حزب اللہ نے گوریلا جنگ کے ذریعے وہاں کا دفاع کیا۔ جنگ لڑنے کا جگرا اسرائیل میں بھی کم ہی ہے۔ وہ اپنے زیادہ فوجی مروا نہیں سکتا کیونکہ یہود کی آبادی دنیا میں بہت چھوٹی ہے۔

اس لیے اسرائیل نے ہی تھوڑے سے نقصان پر ہی واپسی کا سفر کیا۔ پھر اہم بات یہ بھی ہے کہ حزب اللہ خالص عرب فورس ہے بھی نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ ایرانی ’پراکسی‘ ہے، اس لیے اس کے رویے میں کم و بیش وہی کیفیت ہے جو یمن کے حوثیوں میں ہے مگر حزب اللہ کا جگر بڑی اچھی طرح شام کے محاذ پر بعد میں سامنے آیا، جب یہ مورچے چھوڑ چھوڑ کر داعش کے سامنے پسپا ہوئے، یہاں تک کہ ایرانی پاسداران انقلاب روسی فوج کی چھتر چھایا میں وہاں آ گئے۔

قصہ مختصر یہ کہ آج کی بلاد عرب کی فواج میدان جنگ میں کچھ خاص نہیں کر پاتے چاہے وہ صدام کی فوج ہو، محمد بن سلیمان کی فوج ہو یالبنان کی فوج۔ ان افواج میں جو مرغی نہیں ہے وہ شتر مرغ ہے۔ کوئی شتر مرغ نہیں ہے تو گیدڑ ہے۔ ملکی افواج کا تو سرے سے ہی کوئی حال نہیں۔ ہاں گوریلا تحاریک میں پھر بھی کچھ جان ہے مگر یہ گوریلا تحاریک بھی کچھ خاص کر نہیں پائیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا عربوں کی حالت ازل سے یہی تھی؟ اس سوال کا جواب دلچسپ و عجیب ہے۔ قبل از اسلام بھی عرب ایک بہادر قوم تھی مگر کیونکہ ان میں کوئی واضح حکومت قائم نہ تھی اور صحرائی ہونے کی وجہ سے زمین پر قبضہ کرنے کی کوئی خاص طلب نہ تھی، اس لیے عرب قبیلوں میں بٹے ہوئے جزیرہ نما عرب میں جی رہے تھے۔ ان میں قبائلی جنگیں ہوا کرتی تھیں جن میں وہ بڑی بہادری سے لڑا کرتے۔

اسلام کی آمد کے بعد اور اسلام کے جزیرہ نما عرب میں غالب ہو جانے کے بعد عرب ایک طوفان کی طرح دنیا پر غالب آ گئے، شام اور مصر، افریقہ کا شمال عرب اسلامی حکومت نے روم سے لیا اور موجودہ عراق، ایران اور کئی دیگر علاقے کسریٰ سے لئے۔

خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان بن حکم اموی کے عہد میں حکومت کی سرحدیں تقریباً آدھے موجودہ پاکستان، پورے افغانستان، ایران، عربستان، شام، سارے شمالی افریقہ (موجودہ مصر، سوڈان، الجزائر، لیبیا، مراکش وغیرہ) سے ہوتی ہوئی یورپ میں اسپین تک پھیلی تھیں، تب عرب قوم سے زیادہ جری و بہادر دنیا میں کوئی قوم نہ تھی۔

اس کے بعد بنو عباس کی حکومت بھی عرب حکومت ہی تھی گو کہ اس پر عجمی عنصر کا کافی غلبہ تھا۔ پھر رفتہ رفتہ عرب پیچھے ہوتے گئے اور ایرانی اور ترک وغیرہ غالب آنے لگے۔ اولاً یہ سیاسی طور پر ہوا مگر اس کشمکش کے باوجود بھی غور طلب بات یہ ہے کہ شمالی افریقہ میں خالص عرب حکومتیں بڑے زور و شور سے قائم تھیں اور اسپین بھی خالص عرب حکومتوں کے پاس تھا۔

چنگیز اور ہلاکو کے حملوں نے بنو عباس کا بھٹہ بٹھایا تو مکمل طور پر عرب قوت کو ترک قوت نے بدل دیا مگر پھر بھی عرب قوم کی جرات کے نمونے مصر کے چنگیزیوں سے دفاع کے عظیم معرکے اور دیگر ایسے تاریخی واقعات میں ملتے رہتے تھے۔ تب مصر کے حاکم ایوبی تو کرد تھے مگر افواج میں بربر اور عرب رنگ موجود تھا۔ مگر پچھلے 100 سال میں اتنی بہت ساری عرب ریاستیں برطانوی اشارے پر قائم ہوئیں۔ عرب دنیا اور اس کی افواج ہر جنگ میں ایک نوع کا عالمی مذاق بن گئی تھیں۔

اب سوال ان تمام نسل پرستوں سے ہے کہ جو الگ الگ قوموں سے الگ الگ خصوصیات منسلک کرتے ہیں اور ان کا بڑے زور و شور سے ذکر کرتے ہیں، ان تذکروں میں کچھ قومیں بزدل قرار پاتی ہیں اور کچھ بہادر، کچھ ذہین اور کچھ کند ذہن اور یہ Label تا ابد ہی کسی قوم پر چسپاں کر دیے جاتے ہیں، صرف عرب تاریخ کے اوپر مذکور تجزیے سے یہ نظریہ مزاحیہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر صرف بہادری کی ہی بات کی جائے تو محض عرب ہی نہیں، منگول قوم بھی اپنی تاریخ کے تناظر میں آج ایک مذاق کا درجہ رکھتے ہیں۔

یہ قومی ضمیر اور کردار کب اور کیوں بدل جاتا ہے۔ اس کا کوئی حتمی جواب تو آسان نہیں مگر محض 70 سال قبل چینی دنیا کی کمزور ترین قوم تھی اور برطانوی دنیا پر ایسے غالب تھے کہ ان کی زمین پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا۔ آج پورا برطانیہ ماضی کا میوزیم ہے اور چین آج کا برطانیہ ہے۔ شاید قومی کردار کا ہر جز ہمیشہ کے لئے کوئی مستقل شے نہیں، کوئی ایسی شے نہیں کہ جس پر ہم بھروسا کر سکیں ورنہ ولید بن عبدالملک کے ہم وطنوں کو یوں جنگی حزیمتیں نہ اٹھانی پڑتیں۔ ان کا یوں زوال نہ ہوتا اور دوسروں کا یوں عروج نہ ہوتا۔ دنیا ایک نقشے پر رک جاتی اور کچھ نہ بدلتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).