اسرائیل فلسطین تنازعہ۔ ۔ ۔ تاریخی پس منظر (2)


فلسطین کی تاریخ سے متعلق بہت سی روایات موجودہیں اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کم وبیش تمام تاریخی روایات کا سیاق وسباق ایک جیسا ہی ہے۔ فلسطین جس کو ارض کنعان بھی کہا جاتا تھا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ جزیرۃ العرب سے قبیلہ سام کی ایک شاخ کنعانی تھی۔ 2500 قبل مسیح میں کنعانی عرب سے ہجرت کرکے اس خطہ میں آباد ہوئے۔ 1200 قبل مسیح میں کریتی قبائل ارض کنعان پر حملہ آور ہوئے اور موجودہ غزہ کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کریتی اور کنعانی قبائل کے باہمی ملاپ سے اس خطہ کو جو ارض کنعان کہلاتا تھا فلسطین کہا جانے لگا۔

ایک روایت کے مطابق لگ بھگ 2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام جو عراق کے شہر ار میں آباد تھے ہجرت کرکے سرزمین فلسطین پر آباد ہوگئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سرزمین مکہ میں جبکہ حضرت اسحقٰ علیہ السلام کو فلسطین میں آباد کیا۔ حضرت اسحقٰ علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام اسرائیل بھی تھا۔ اورحضرت یعقوب کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حکمران بنے تو حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے خاندان سمیت سرزمین مصر منتقل ہوگئے جس کے سبب فلسطین پر دیگر اقوام کا قبضہ ہوگیا۔

300 قبل مسیح میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بنی اسرائیل کو فرعون مصر کی غلامی سے نجات ملی اور بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بحیرہ قلزم پارکرکے وادی سینا پہنچے تو بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا کہ وہ جہاد کریں اور بیت المقدس کو آزاد کرائیں۔ لیکن بنی اسرائیل اس سرزمین پر بسنے والی قوم عمالقہ سے الجھنا نہیں چاہتے تھے اس لیے بنی اسرائیل نے نافرمانی کرتے ہوئے پیغمبر خدا سے کہا کہ آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جا کر جنگ کریں ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سورہ المائدۃ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس نافرمانی پر ارشاد ربانی ہوا کہ بنی اسرائیل پر چالیس سال حرام کردیے گئے۔ تاہم اس کے بعد حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی حضرت ہارون اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قوم بنی اسرائیل چالیس سال تک در بدر بھٹکتی رہی۔

اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کی سربراہی میں بنی اسرائیل کی اریحا کے مقام پر عمالقہ سے جنگ ہوئی اور بنی اسرائیل ان کو شکست دے کر بیت المقدس میں داخل ہوگئے۔ یوشع بن نون کی وفات کے بعد بیت المقدس ایک بار پھر دوسری قوموں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس بار حضرت طالوت نے بنی اسرائیل کی قیادت کی اور بادشاہ جالوت کو شکست دے کر یہ علاقہ آزاد کرایا۔ حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت داود علیہ السلام نے ان کے جانشین کی حیثیت سے حکومت کی اور مملکت کو اسرائیل کا نام دیا۔

یہ سلطنت ترقی کرتی رہی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل تعمیر کیا جو بنی اسرائیل کا قبلہ بنا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قبل مسیح میں بابل کے حکمران بخت نصر نے ہیکل سلیمانی پر حملہ کر کے جلا کرراکھ کر دیا، مقدس شہرکو برباد کر دیا اور یہودیوں کو بے دریغ قتل کیا اور جو زندہ بچ گئے ان کو قیدی بنا کرپایہ تخت بابل لے گیا۔

تاہم کچھ مدت گزرنے کے بعد بیت المقدس دوبارہ آباد ہونے لگا اور ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔ تاہم بیت المقدس رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس دوران بیت المقدس سے پانچ میل کے فاصلہ پر بیت اللحم کے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبوت کے اعلان کے بعد یہودیوں نے سازشیں شروع کردیں اور رومی بادشاہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کر دیا۔ رومی بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کی سزا سنا دی۔

مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ رومی عیسائیت قبول کرنے لگے۔ ایک مسیحی حکمران طیطس رومی نے ایک بار پھر بیت المقدس پر حملہ کرکے ہیکل سلیمانی کو جلا کرراکھ کر دیا اور یہودیوں کی وہاں رہائش پر پابندی لگا دی۔ بیت المقدس اب عیسائیوں کے قبضے میں آ گیا اور اس کے بعد یہودیوں کو کئی صدیوں تک دوبارہ اس شہر میں رہنا نصیب نا ہوسکا۔

اس تاریخی پس منظر کے تحت تین قوموں یہودی، عیسائیوں اور مسلمانوں کا بیت المقدس پر دعویٰ ہے۔ سفر معراج میں خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں انبیا علیہ السلام کی امامت فرمائی اور ہجرت مدینہ کے بعد کم وبیش سترہ ماہ تک مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ یہودیوں کا دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ ان کا قبلہ اول ہیکل سلیمانی یہاں پر تعمیر ہوا اور عیسائیوں کا دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش مبارک اس خطہ میں ہوئی۔

بیت المقدس ایک مدت تک عیسائیوں کے کنٹرول میں رہا حتیٰ کہ اس دوران اسلام کا ظہو رہوا اور خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد نبوت کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیت المقدس مسلمانوں کی تحویل میں آیا۔ خلیفہ ثانی اس عظیم موقع پر خود وہاں پر تشریف لے گئے۔ چونکہ مسلمانوں نے بیت المقدس عیسائیوں سے حاصل کیا تھا اس کے بعد عیسائیوں او رمسلمانوں کے مابین اس بنیاد پر لاتعداد مرتبہ جنگیں ہوئیں۔

مسلمان ہر بار فاتح رہے تاہم صلیبی جنگوں کے دوران گیارہویں صدی عیسوی میں یورپ کی فوجوں نے بالآخر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ نوے سال تک جاری رہا۔ بالآخر سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں میں عظیم فتوحات کے بعد بیت المقد س کو عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کرالیا۔ بیت المقدس کم وبیش ایک ہزار سال سے زائد مدت تک مسلمانوں کی تحویل میں رہا اور 1917 میں پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).