ہمیں سردیوں میں جمہوریت اور گرمیوں میں صرف آم چاہیے!


جنرل ایوب خان کا خیال تھا کہ پاکستان کے لوگ اتنے غریب اور جاہل ہیں کہ انہیں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے اسی لیے لوگوں کو ’بنیادی جمہوریت‘ کا سبق پڑھایا تھا۔ اسی طرح آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان جیسے گرم علاقوں کے لیے جمہوریت بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ جمہوریت تو صرف برطانیہ جیسے سرد علاقوں کو ہی راس آتی ہے۔ اب جمہوریت کا موسم گرما سے کیا جھمیلا ہے اور موسم سرما سے کیا سمبندھ ہے، اور خدا کو پاکستانی علاقوں کو گرم رکھ کر ’آم جیسے پھلوں کے بادشاہ‘ سے نواذانے اور جمہوریت جیسے کافرانہ نظام حکومت سے محروم رکھنے میں کیا حکمت تھی، کسی کو معلوم ہو تو ہم سب کو ضرور گوش گزار کرے اور عند اللہ ماجور ہو۔

خود مصور پاکستان اور پاکستان کے قومی شاعر سرڈاکٹر علامہ اقبال بھی ایسی مغربی جمہوریت کے شدید مخالف تھے جس میں بندوں کو تولنے کی جائے گنا جاتا ہے۔ آپ بہرحال پاکستان میں بندوں کو تولنے والی ’روحانی جمہوریت‘ کے ضرور خواہشمند تھے۔ اب یہ عین ممکن ہے کہ اسی روحانی جمہوریت کی تلاش میں ہماری عدلیہ پاکستان میں مارشل لاء کو جواز فراہم کرتی رہی ہو۔ لیکن سپریم کورٹ کے معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس بیان پر کہ ”مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے“ نے سارا معاملہ مشکوک کر دیا ہے۔ بہرحال، معاملہ جو بھی ہو، ہمیں تو فی الحال آج پاکستانی آئین اور جمہوریت بارے عدلیہ کی ’تاریخی خدمات‘ پر بات کرنی ہے۔

چند روز ہوئے جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے سندھ حکومت بارے ارشاد فرمایا تھا کہ سندھ حکومت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، حکومت ناکام ہو چکی ہے، اور کیا وفاق سے کہیں کہ وہ معاملات آ کر ٹھیک کرے۔ اس بیان پر مختلف سیاسی، سماجی اور صحافی حلقوں نے انتہائی تشویش اور حیرانی کا اظہار کیا تھا۔ تشویش اس لیے مذکورہ بیان ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب کہ وفاق اور سندھ کی حکومتیں آپس میں دست و گریباں دکھائی دیتی ہیں اور حیرانی اس لیے کہ اس بیان سے یوں لگا جیسا کہ وفاقی حکومت حکومتی معاملات کو بڑے احسن طریقے سے چلا رہی ہے۔

وفاقی حکومت بارے صرف اتنا کہنا ہی مناسب ہو گا کہ پچھلے دو سال سے پوری قوم تبدیلی اور نئے پاکستان کے فریب کن عنوان سے ایک ایسے ہینڈسم عذاب کو بھگت رہی ہے جس پر نہ تو گھبرانے کی اجازت ہے اور نہ بات کرنے کی۔ ’سانوں کی تھیوری‘ شاید اسی قسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانیوں نے ایجاد کی تھی۔

پاکستان بار کونسل نے بھی سپریم کورٹ کے مذکورہ بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے اور اس طرح کے غیر ذمہ دارنہ بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے سپریم کورٹ میں زیر التوا 43 ہزار مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ کرے۔

اگر ہم پاکستانی آئینی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں آئین اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں اعلیٰ عدلیہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے۔ عدلیہ کی ذمہ داری اس لیے بھی سب سے اہم ہو جاتی ہے کہ جب کوئی طالع آزما، آئین اور قانون کو پس پشت ڈالتے ہوئے، طالع آزمائی پہ اتر آئے تو یہ عدلیہ ہی ہے جسے اس کے راستے میں بند باندھنا ہوتا ہے۔ لیکن آفریں صد آفرین ہے ہماری عدلیہ پرجس نے ہمیشہ غیر آئینی اور غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔

1955 میں مولوی تمیزالدین کیس میں اعلیٰ عدلیہ نے گورنر جنرل غلام محمد کے پہلی دسستور ساز اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح یوسف پٹیل کیس اور گورنر جنرل ریفرنس کیس کے ذریعے ’ڈاکٹرائن آف سٹیٹ نیسیسٹی‘ کو وجود بخشتے ہوئے سیاسی اور قانونی سقم کو پورا کیا گیا۔

1958 میں دوسو کیس میں کیلسن کی ’پیور تھیوری آف لاء‘ کا سہارا لیتے ہوئے جنرل ایوب خان کے غیر آئینی اقدام کو سہارا فراہم کیا گیا۔ اور کامیاب انقلاب یا فوجی بغاوت کو آئین تبدیل کرنے کا ایک بین الاقوامی مسلمہ اصول قرار دیا گیا۔ اور یہ بھی فرمایا گیا کہ عدالتوں کے اپنے اختیارات بھی اسی کامیاب انقلاب کے مرہون منت ہوتے ہیں۔

1972 میں عاصمہ جیلانی کیس میں اعلیٰ عدلیوں نے جنرل یحییٰ خان کو غاصب/قابض اور اس کے مارشل لاء کو غیر آئینی اس وقت قرار دیا جب کہ وہ اقتدار چھوڑ چکا تھا اور مشرقی پاکستان الگ ہو چکا تھا۔

1977 میں نصرت بھٹو کیس میں اعلیٰ عدلیہ نے ایک دفعہ پھر ’نظریۂ ضرورت‘ کو زندہ کر کے جنرل ضیاء الحق کو خوش آمدید کہا۔

1999 میں ایک دفعہ پھر مارشل لاء کی آمد ہوئی۔ اور ظفر علی شاہ کیس کے ذریعے ایک دفعہ پھر ’نظریہ ضرورت‘ کو تازہ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام بخشا گیا۔ گو کہ بعد میں اسی عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل مشرف کو آئین سے غداری پر موت کی سزا سنائی لیکن بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے قرآنی آیات کے حوالے دے کر پوری کارروائی کو ہی غیر آئینی قرار دے دیا۔

آئین پاکستان کا ابتدائیہ، جو کہ قرار داد مقاصد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور جو آرٹیکل 2۔ اے کے تحت آئین کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اس ابتدائیہ میں ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اور یہ کہ مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔

اللہ تعالیٰ سے اس عزم کے اظہار اور آئین کے آرٹیکل 178 اور 194 کے تحت اٹھائے گئے آئین سے پاسداری کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری عدلیہ نے آئینی طور پر منتخب جمہوری حکومتوں کا ساتھ نہیں دیا اور آئین کے آرٹیکل 244 کے تحت اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جواز فراہم کرتی رہی۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ خود سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر بھی جمہوریت ناپید رہی ہے اور جمہوری حکومتوں نے بھی اکثر اعلیٰ عہدوں پر ’غیر منتخب‘ لوگوں کو ’منتخب‘ کیا ہے۔ اگر ہمیں جمہور کے متنخب کردہ نمائندوں کو اختیارات استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی تو قرارداد مقاصد اور دیگر جمہوری آئینی شقوں کو آئین سے نکال باہر کرنا چاہیے اور ایسا ’نیا عمرانی معاہدہ‘ تشکیل دینا چاہیے جس میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کا بھی حکومت میں باقاعدہ حصہ بقدر جثہ ہو۔ بہرحال، جو بھی ہو، جیسے بھی ہو، جمہوریت کے عنوان سے اس طرح کاسنگین مذاق اسلام، آئین اور قوم کے ساتھ جاری نہیں رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).