دو قومی نظریہ اور اقلیتی حقوق


14 اگست 2020 بروز جمعہ کو نماز فجر کے بعد صوبائی حکومتوں میں 21، 21 اور وفاقی دارالحکومت میں 31 توپوں کی سلامی سے پاکستان نے اپنے 73 سال بطور آزادی مکمل کر کے 74 ویں سال کا شاندار آغاز کیا۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جنہوں نے ایک برصغیر کے مسلمانوں کے ایک عظیم خواب دیکھا۔ خواب ایک الگ آزاد ریاست کا، جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے تہذیب و تمدن کا پاس رکھ سکیں جہاں ان کو ان کے حقوق کی بلا خوف آزادی ہو۔

پاکستان کا قیام تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ افسوس کی بات ہے آج کا پاکستان قائد اعظم کے پاکستان کے نظریے سے مختلف ہے۔ ہم بھول گئے ہیں قائد کے پاکستان اور اس کے نظریے کو۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو دیکھتے ہوئے دو قومی نظریہ پیش کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اس بات کا احساس ہوگیا برصغیر میں اب مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ان کو ہر صورت الگ الگ ہونا ہی پڑے گا۔ مسلمانوں کو بطور اقلیت بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بانی پاکستان نے نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کی بات کی بلکہ دو قومی نظریے کی بنیاد میں ایک ایسی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا جہاں مسلم اکثریت کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی مذاہب آزادانہ زندگی بسر کر سکیں، اپنے مذہب و تمدن کا پاس رکھ سکیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف مسلمانوں کے حقوق کے لیے بنا جب کہ یہ غلط تاثر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہو۔ بانی پاکستان کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ برصغیر میں جب مسلم اقلیت میں تھے تو ان کے ساتھ ناگوار سلوک کیا جاتا تھا بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس لیے وہ پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں اقلیتی لوگوں کو کبھی کسی بھی قسم کی کمی محسوس نہ ہو۔

جب باقاعدہ طور پر قیام پاکستان کا اعلان ہو گیا تو 7 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں تشریف لائے۔ 11 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے ایک تاریخی خطاب کیا۔ یہ خطاب نئی مملکت کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ قائد اعظم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ

”کوئی طاقت دوسری قوم کو اپنا غلام نہیں بنا سکتی بالخصوص اس قوم کو جو چالیس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہو، اگر یہ کمزوری نہ ہوتی کوئی اس کو زیر نہیں کر سکتا تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کوئی آپ پر طویل عرصہ تک حکمرانی نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے“ قائد اعظم محمد علی جناح نے مزید فرمایا۔ ”آپ آزاد ہیں آپ آزاد رہیں، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں یا مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ کا مذہب کیا ہے، آ پ کی ذات کیا ہے، قوم کیا ہے۔ اس کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں“

میں نے یہ پیراگراف 11 اگست 1947 کی تقریر سے لیا ہے جس میں انہوں نے ملک پاکستان میں برصغیر سے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے آنے والی اقلیتوں کے حقوق کو صاف اور کھلے الفاظ میں واضح کر دیا۔ ان کو کس قسم کے حقوق حاصل ہوں گے او راس ضمن میں ریاست کی کیا ذمہ داریاں اور ان کے ساتھ کیسا رویہ ہوگا۔ اس اہم ترین تقریر سے قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر نئی مملکت اور اس کے دستور کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کر دی اور ان ہی بنیادں پر نیا دستور بننا تھا۔

چھ دہائیوں بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے جب 2008 میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں اقلیتوں کے سیاسی، سماجی، قانونی، مذہبی حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا۔ اس ضمن میں حکومت نے 11 اگست کے دن کو قومی یوم اقلیت قرار دیا۔ تب سے آج تک دن بطور یوم اقلیت منایا جاتا ہے۔ یہ دن قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کی نسبت سے مقرر کیا گیا جس میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق وضاحت کے ساتھ بتایا کہ ان کو کس قدرمذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس آزادی کا کس طرح تحفظ کیا جائے گا۔

کیا ہم آج قائد کے پاکستان کے نظریے یا ان لفظ بہ لفظ کو پورا کررہیے ہیں؟ کیا آج کا پاکستان قائد کے پاکستان سے مختلف نہیں؟ اگرچہ آپ کو یہی لگتا ہے کہ آج کا پاکستان ہی قائد کا پاکستان ہے؟ مگر گزشتہ چند سالوں کی انسانی حقوق کی رپورٹس ہمیں کچھ اور ہی بتاتی ہیں۔ خیر چھوڑ دیں وہ باتیں جو بیت گئی مگر اب ہمیں مزید وقت ضائع کیے بغیر ان پہلو کو دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم آج کا پاکستان انہیں خدو خال کی عکاسی کرتا ہے جو قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی میں بنیاد رکھی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).