انڈین حکومت کا اپنے زیر انتظام کشمیر سے سکیورٹی فورسز کی 100 کمپنیاں واپس بلانے کا فیصلہ


کشمیر

انڈیا کی مرکزی حکومت نے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر سے سکیورٹی فورسز کی 100 کمپنیاں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فوجی دستے رواں ہفتے کے آخر تک جموں و کشمیر سے چلے جائیں گے۔

گزشتہ برس اگست میں آرٹیکل 370 کے ساتھ ہی کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کا اعلان ہونے سے ایک ماہ قبل ہی کشمیر میں ہزاروں اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا تھا۔

اس فیصلے کے ایک سال بعد بدھ کے روز انڈین وزارت داخلہ نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ کشمیر میں تعینات سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کی 40، سینٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس کی 20 اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس یا سی آر پی ایف کی بیس کمپنیوں سمیت مجموعی طور پر نیم فوجی اہلکاروں کی 100 کمپنیوں کو کشمیر سے واپس بلایا جا رہا ہے۔

انڈیا کے نیم فوجی اداروں کی ایک کمپنی سو سے تین سو افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ سی آر پی ایف کے ایک افسر نے بتایا کہ مجموعی طور پر بیس ہزار سے زیادہ اہلکاروں کو کشمیر سے ‘ری لوکیٹ’ کیا جا رہا ہے۔

پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ معمول کی سرگرمی ہے۔ کشمیر میں فورسز کی تعیناتی یا واپسی ایک مسلسل عمل ہے، اس کا کوئی خاص مطلب نکالنا غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے۔‘

سکیورٹی فورسز سے متعلق اس اعلان کا مطلب کیا ہے؟

انڈیا کے حکومت نے اپنے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ برس جولائی اور اگست میں تعینات کی گئیں اضافی فورسز کو واپس بلانے کا اعلان کر کے وادی میں ایک دیرینہ مطالبے کو عوامی مباحثوں کا موضوع بنا دیا ہے۔

کشمیر میں اکثر حلقے اس فیصلے کے کئی پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔

معروف صحافی اور تجزیہ نگار شیخ قیوم کہتے ہیں ’ایک سال قبل حکومت سمجھتی تھی کہ کشمیر کی پوری آبادی کو کنٹرول کرنا ہے، کیونکہ لوگ بڑی تعداد میں مسلح عسکریت پسندوں کی حمایت میں جان دینے پر آ مادہ تھی۔ اب عسکریت پسند مارے جاتے ہیں لیکن لوگ کنٹرول میں ہیں۔ اس فیصلے کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ لوگ اب سُدھر گئے ہیں اور اب یہ معاملہ عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان ہے، اور عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی یہاں کافی فورسز ہیں۔‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے سال پانچ اگست کو جب کشمیر کی نیم خود مختاری کا خاتمہ کیا گیا اور اس کے بعد درجنوں قوانین کو نافذ کیا گیا تو کشمیریوں میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ اُنہیں فلسطینیوں کی طرح ‘بے وطن’ کیا جائے گا اور جموں کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار ختم کیا جائے گا۔

اس سوال پر علیحدگی پسند اور ہندنواز ایک ہی صفحے پر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ ہندنواز رہنماؤں اور اُن کے کارکنوں کو بھی قید کیا گیا۔ اب بیشتر رہا ہوگئے ہیں تاہم سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اب بھی قید میں ہیں۔

شیخ قیوم کہتے ہیں ’اب حکومت کو یہ بھی مجبوری ہے کہ اُسے دکھانا ہے کہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہورہے ہیں۔‘

غور طلب بات ہے کہ یہ فیصلہ سرینگر اور بارہمولہ میں پے درپے کئی مسلح حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔ ان حملوں میں فوج، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے سات اور تین عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

پولیس اور فوج کے اعلیٰ افسر کئی ماہ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ کشمیر میں مسلح عسکریت پسندوں کی تعداد اب بھی دو سو سے زیادہ ہے۔ حالانکہ گزشتہ سال اگست سے رواں سال کے اگست تک 73 عام شہریوں، 200 عسکریت پسندوں اور 80 فوجی، نیم فوجی و پولیس اہلکاروں سمیت ساڑھے تین سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں ’مسلح افراد دن دہاڑے سیاسی افراد پر حملہ کرتے ہیں۔ بی جے پی کے نصف درجن کارکن مارے گئے ہیں۔ اب تو بی جے پی ہر ضلع میں محفوظ عمارات کی تعمیر کی تجویز حکومت کو دے چکی ہے۔ ایسے میں چند فورسز کے انخلا کو فوجی انخلا سمجھنا غلط ہوگا۔‘

واضح رہے پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے 2004 میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا اُس کا پہلا نکتہ کشمیر کے آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلا تھا۔

’خوبصورت قید خانہ‘

اسی دوران جب یورپین یونین کے نمائندہ وفد نے کشمیر کا دورہ کیا تو سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران یورپی سفارتکاروں نے کشمیر میں موجود افواج کی وجہ سے وادی کو ’خوبصورت قید خانہ‘ قرار دیا تھا۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی عالمی تنظمیوں اور انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کشمیر دُنیا کا واحد خطہ ہے جہاں فوج نہ صرف سرحدوں پر ہے بلکہ لوگوں کی زندگیوں کا حصہ ہے۔

انسانی حقوق کے دفاع میں سرگرم مقامی تنظیم کولیش آف سول سوسائیٹیز نے چند سال قبل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ’کشمیر میں فوج، پولیس، نیم فوجی اہلکاروں، خفیہ اداروں اور نیم سرکاری فورسز سمیت کل ملا کر دس لاکھ افواج تعینات ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32511 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp