انڈیا میں عامر خان اور ترک صدر اردوغان کی اہلیہ کی ملاقات پر شور، ترکی انڈیا کا دوست ہے یا دشمن؟


بالی وڈ اداکار عامر خان کی ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی اہلیہ سے ملاقات کی تصویریں کیا آئيں کہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔

کم از کم انڈیا میں ان تصاویر سے متعلق سوشل میڈیا، ٹی وی، ویب سائٹس پر گرما گرم بحث نظر آئی۔ اگر ان سب کا نچوڑ دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ عامر خان ترکی گئے تھے اور اس سے انڈیا میں بہت سے لوگ ناراض ہیں۔ لیکن کیوں؟

اس کا جواب یہ مل سکتا ہے، کیونکہ ترکی پاکستان کا دوست ہے۔

یا جیسا کہ بی جے پی کے راجیہ سبھا رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے کہا کہ ترکی ’اینٹی انڈیا‘، یعنی انڈیا مخالف ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عامر خان کی ترک صدر اردوغان کی اہلیہ سے ملاقات پر تنقید

عامر خان چین کے بعد اب ترکی کی مہم پر!

پاکستان، انڈیا کشیدگی: پس پردہ سفارتی کاوشیں

لیکن کیا یہ دونوں باتیں سچ ہیں؟

ترکی میں انڈیا کے سفیر رہنے والے ایم کے بھدرکمار کہتے ہیں: ‘یہ بالکل بکواس ہے، جو بھی ایسا کہہ رہا ہے اسے ترکی کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں ہے۔’

تو پھر ترکی انڈیا کا دوست ہے یا دشمن؟ اس کو سمجھنے کے لیے ماضی کے تعلقات کا علم ضروری ہے۔

دوستی میں پہلی کوشش

انڈیا نے سنہ 1947 میں آزادی حاصل کی اور پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے شروع سے ہی جن ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی ان میں ترکی شامل تھا۔

دلی میں قائم یونیورسٹی جے این یو میں مغربی ایشیا سٹڈیز کے پروفیسر اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ نہرو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے وقت سے ہی ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتے تھے۔

پروفیسر پاشا نے کہا: ‘وہاں مصطفی کمال پاشا نے عثمانی سلطان کو ہٹا کر ایک سیکولر، جمہوری نظام قائم کیا اور نہرو اس بات سے متاثر ہوئے کہ پہلی بار اتنا بڑا مسلم ملک سیکولر ملک بننے والا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انڈیا کو بھی ایسا ہی ملک بننا چاہیے۔

لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا امریکہ اور اس وقت کے سوویت یونین کے درمیان دو قطبوں میں تقسیم ہو گئی اور سرد جنگ کا آغاز ہوا تو ترکی امریکی کیمپ میں اور مغربی ممالک کی فوجی تنظیم نیٹو میں شامل ہوگیا۔ پاکستان بھی امریکی کیمپ میں شامل ہو گیا۔

انڈیا کو اس سے مایوسی ہوئی کیونکہ وہ سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار رہا، نہ اس نے مغربی قیادت والی امریکی افواج کا ہاتھ تھاما اور نہ ہی اس نے سوویت قیادت کا پرچم اٹھایا۔

سرد جنگ کے دوران فاصلے بڑھ گئے

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ ‘نہرو کو اس بات پر شدید رنج ہوا کہ ہماری کوششوں کے باوجود ترکی مغربی ممالک کے ساتھ امریکی گروپ میں شامل ہو گیا۔’

چنانچہ سرد جنگ کے دوران انڈیا اور ترکی کے مابین فاصلہ بڑھتا ہی گیا۔ ترکی امریکہ کے قریب ہوتا گیا اور انڈیا نے بھی سوویت یونین کے کیمپ کے قریب جانا شروع کیا۔

اور اس دوران ترکی اور پاکستان کی دوستی ہوتی چلی گئی۔ ترکی نے پاکستان کو فوجی مدد بھی فراہم کی۔ ترکی نے سنہ 1965 اور 1971 کی پاک-انڈیا جنگوں میں پاکستان کی بہت مدد کی۔

اس کے بعد جب سنہ 1974 میں ترکی نے قبرص پر حملہ کیا تو انڈیا اور ترکی کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوتے چلے گئے کیوںکہ انڈیا نے قبرص کی حمایت کی۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ قبرص کے صدر آرک بشپ ماکریوس غیرجانبدار تحریک کے ایک بڑے رہنما تھے۔

پروفیسر پاشا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘اندرا گاندھی (اس وقت انڈیا کی وزیر اعظم) کو اس بات پر سخت رنج ہوا کہ ترکی نے قبرص کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے غیر وابستہ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر ترکی کے خلاف کارروائی کی۔ اس کے بعد بھی بہت سے دیگر واقعات ہوئے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین فاصلے بڑھتے گئے ہیں اور پاکستان اور ترکی کی قربتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔’

دوستی کی دوسری کوشش

سنہ 1984 میں راجیو گاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ترکی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر تھا جس نے 80 کی دہائی کے آخر میں زور پکڑنا شروع کیا۔

اس وقت مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کی تحقیقات کے لیے ایک گروپ تشکیل دیا تھا اور ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک اس میں کافی سرگرمی کا مظاہرہ کررہے تھے۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ اس وقت انڈیاکو لگا کہ ترکی سے قریب ہونے سے کام ہو گا اور نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپائی جیسے وزرائے اعظم نے تعلقات کو بہتر بنانے کے ارادے سے ترکی کا دورہ کیا۔

اسی طرح ترکی کے وزیر اعظم بلند یویت بھی انڈیاکے دورے پر آئے اور انھوں نے یہ کہتے ہوئے پاکستان جانے سے انکار کردیا کہ پاکستان کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے اور وہ براہ راست انڈیا آئے۔

سنہ 1998 سے 2001 تک ترکی میں انڈیا کے سفیر رہنے والے ایم کے بھدرکمار کہتے ہیں؛ ‘جب میں سفیر تھا، تعلقات بہت اچھے تھے، وزیر اعظم انڈیا گئے تو انھوں نے بھگود گیتا اور گیتانجلی کا ترجمہ کیا تھا۔’

پروفیسر پاشا نے کہا: ‘سنہ 1990 اور 2001 کے درمیان ایسا لگتا تھا کہ ترکی اب پاکستان کو چھوڑ کر انڈیا کے قریب آجائے گا، لیکن سنہ 2002 میں صورت حال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب اسلام کے نام پر اردوغان کی جماعت برسر اقتدار آئی۔’

اردوغان نے بھی کوشش کی

اسلام کے نام پر اقتدار میں آنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یا اے کے پارٹی کے رہنما رجب طیب اردوغان نے ترکی کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جسے اتا ترک یعنی مصطفی کمال پاشا نے تشکیل دیا تھا۔

صرف یہی نہیں۔ انھوں نے ترکی کو مسلم ممالک کا قائد اور علاقائی طاقت بنانے کی کوشش بھی شروع کر دی۔ انھوں نے بین الاقوامی سطح پر مسلم برادریوں سے متعلق متنازع امور کو رکھنا شروع کیا جن میں فلسطین کا بحران اور مسئلہ کشمیر بھی شامل تھے۔

اردوغان کے دور میں بھی انڈیا اور ترکی کے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ اس میں دو بڑے مسئلے تھے۔

پہلا مسئلہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی عدم توازن تھا، جو انڈیاکے حق میں تھا۔ یعنی انڈیا زیادہ سامان ترکی بھیج رہا تھا، ترکی سے در آمد کم تھی۔ چنانچہ ترکی توازن چاہتا تھا کہ انڈیا اپنی درآمدات میں اضافہ کرے اور مشرق وسطی میں ترکی کے ساتھ منصوبوں پر بھی کام کرے۔

دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ ترکی کے پاس اپنا تیل اور گیس نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ایٹمی طاقت یا جوہری طاقت بننے کی تیاری کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے ہاں بھی تھوریم اسی طرح موجود ہے جس طرح یہ انڈیا کے کیرالہ میں پایا جاتا ہے۔

چنانچہ ترکی چاہتا تھا کہ انڈیا انھیں تھوریم سے بجلی بنانے کی ٹیکنالوجی دے۔ لیکن پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ انڈیا نے انکار کر دیا۔

پروفیسر پاشا نے کہا: ‘اردوغان خود دو بار سنہ 2017 اور 2018 میں دہلی آئے تھے لیکن انھوں نے ناراض ہو کر کہا کہ انڈیا سے امید رکھنا بیکار ہے۔’

اور اس کے بعد سے ایک طرف جہاں اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ جیسے ممالک سے انڈیا کی قربت بڑھتی گئی ترکی مزید دور چلا گیا۔

سابق سفیر ایم کے بھدرکمار نے کہا: ‘انڈیا-ترکی تعلقات بہترین حالت میں نہیں ہیں۔ ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات کے بارے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے لیے جتنی کوششیں کر رہے ہیں اس سے زیادہ ترکی کے متعلق کرنا چاہیے۔’

کشمیر کا معاملہ

ایک اور معاملے پر انڈیا اور ترکی کے مابین اس وقت تلخی میں اضافہ ہوا جب ترکی میں سنہ 2016-17 میں بغاوت کی کوشش ہوئی۔

ترکی نے اس کے لیے امریکہ میں مقیم ترک مذہبی پیشوا فتح اللہ گلین کی تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا اور الزام لگایا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ان کو ترکی کا تختہ پلٹنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

گلین تحریک انڈیا میں بھی سرگرم عمل رہی ہے۔ اور پھر اردوغان نے توقع کی تھی کہ انڈیاگلین موومنٹ کے تمام سکولوں اور دفاتر کو بند کرا دے۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ جب انڈیا نے ان کی بات نہ مانی تو اس نے بھی مسئلہ کشمیر اٹھانا شروع کردیا۔

در حقیقت انڈیا کے ساتھ تعلقات استوار نہیں ہوتے دیکھ کر ترک صدر نے اب اپنی توجہ مسلم ممالک کے قائد بننے پر مرکوز کر دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ قطر کے محاصرے پر سعودی عرب کو دھمکی دیتے ہیں، کبھی غزہ کی پٹی کے محاصرے کے دوران وہاں فلسطینی عوام کی مدد کے لیے مدد بھیجتے ہیں، کبھی وہ آیا صوفیہ کو مسجد بنا کر خود کو اسلامی قوت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کبھی مسلمانوں کے انسانی حقوق کو کچلنے کے مبینہ معاملات کو بھرپور طریقے سے اٹھاتے ہیں۔

کشمیر پر بیان

رواں سال فروری میں صدر اردوغان نے پاکستانی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا ترکی کے لیے۔ انھوں نے گذشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی مسئلہ کشمیر کو اٹھایا تھا۔

تاہم سابق سفیر ایم کے بھدرکمار کا کہنا ہے کہ انڈیا جس طرح سے ترکی کو پیش کرنا چاہتا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا اس پر متفق ہو جائے جو ہم نے کشمیر پر کیا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ بیشتر ممالک اس سے اتفاق نہیں کرتے، چاہے وہ اس کو کوئی مسئلہ ہی کیوں نہ بنائیں، لیکن وہ اس سے متفق نہیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ حکومت نے کشمیر میں جو کیا وہ ٹھیک نہیں تھا پھر کیا وہ لوگ انڈیا مخالف ہو گئے۔’

اسی کے ساتھ ہی پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ اگرچہ ترکی مسئلہ کشمیر اٹھاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کوئی خاص مدد نہیں دے رہا ہے، لیکن وہ یہ پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے کہ وہ کشمیر کی حمایت کرے گا۔

ترقی کی دوڑ

ایم کے بھدر کمار کا کہنا ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ انڈیا کی بدلی ہوئی پالیسی ہے جسے ترکی قبول نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا ‘ترکی جیسے ممالک کو انڈیا سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی ایسا تجربہ نہیں کیا جس میں انڈیا برتر ملک کے طور پر سلوک کرتا ہو، وہ اس سے خوش نہیں ہیں۔’

تو ترکی دوست ہے کہ دشمن؟ اس کا جواب شاید یہ ہو گا کہ دونوں ممالک اس وقت اپنی اپنی دوڑوں میں مسابقت کر رہے ہیں، اور دونوں ایک دوسرے کو ہراسانی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ انڈیا جس طرح سے ایک بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے ترکی بھی اسی طرح کی کوشش کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘سنہ 1985 سے پہلے کے جو پرانے زخم تھے ہم انھیں کھرچ کر انھیں مشتعل کر رہے ہیں اور وہ بھی کشمیر کے معاملے میں 50 60 70 کی دہائیوں کی پالیسی کو دہرا رہے ہیں۔’

سابق سفیر بھدرکمار کہتے ہیں: ‘عامر خان کے لیے ایسے ماحول میں ترکی جانا اچھی بات ہے، اور ایک حساس انڈیا کو ایسے لوگوں کو اپنا ثقافتی سفیر بنا کر پیش کرنا چاہیے اور ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں: ‘اگر ترکی کے ساتھ تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں تو پھر اس طرح کے تبادلے سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ اور کیا عامر خان کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی ہے؟ انڈیا کو تو عامر خان کا استعمال کرنا چاہیے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp