بلاول بھٹو صاحب! عاصمہ شیرازی کے ساتھ ہماری بھی سنیں


جناب عالی!

آپ نے خواتین صحافیوں کی ہراسمنٹ کا نوٹس لیا ہے تو آج کل سچ کی آواز اٹھانے والی خواتین کی ایک اور بھی مخلوق پائی جاتی ہے جنہیں بلاگر کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ وہ چونکہ صحافی نہیں کہلاتیں اس لیے ان کو کسی بھی ادارے سے کوئی تنخواہ یا اعزازیہ نام کی کوئی چیز نہیں دی جاتی جب تک کہ وہ کسی نہ کسی ایڈیٹر کی چہیتی یا تعلق دار نہ ہوں۔ چونکہ وہ ٹک ٹاک کی ڈانسرز یا ماڈلز نہیں تو ان کو گورنر ہاؤس بھی نہیں بلایا جاتا حوصلہ افزائی کے لئے۔

ان کی تحریروں سے اخباروں، ٹی وی چینلز کی سائٹس یا ذاتی پلیٹ فارمز کو بھرا ضرور جاتا ہے مگر ان کو صحافی ہونے کا استحقاق یا رتبہ میسر نہیں۔ یہ خواتین صرف اپنے گھروں میں بیٹھ کر پورا گلا پھاڑ کر سچ کی آواز لگاتی ہیں صرف اس لئے کہ انہیں اپنے آس پاس ایسے حالات و واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر ان سے خموش بیٹھا نہیں جاتا چنانچہ اپنے حصے کی اذان مفت دے ڈالتی ہیں۔ لے دے کر سچ اور دبنگ لکھنے کے الزام میں چار لوگ واقف ہو جاتے ہیں ان کے نام سے اور بس۔ یہی وہ کل کائنات ہے جو آمدنی کے طور پر یہ خواتین کماتی ہیں۔

مگر جناب عالی! صفر معاوضے اور صفر رتبے کے ساتھ ایک اور چیز یہ بلاگر نما مخلوق بے تحاشا کماتی ہے جو ہراسمنٹ ہے جس کے خلاف آپ کی قائمہ کمیٹی نے آواز تو اٹھائی مگر اس میں بھی ان بلاگر خواتین کا شمار کرنا بھول گئے۔ یہ بھی بھول گئے کہ سچ کی آواز اٹھانے پر ان کی بھی ہراسمنٹ ہو سکتی ہے۔۔ ۔ شاید یہ بھی بھول گئے کہ یہ بھی عورتیں ہیں۔ جانے آپ کیا کچھ بھول گئے یا آپ کے خیال میں ہراسمنٹ کے خلاف مدد صرف ان خواتین صحافیوں کا حق ہے جو بڑے بڑے اداروں میں اونچی کرسیوں پر بیٹھتی ہیں، لاکھوں کی تنخواہیں لیتی ہیں، لاکھوں لوگ روانہ دس پلیٹ فارمز پر ان کی تحریریں فی سبیل اللہ پڑھتے ہیں اور وہ مفت میں آپ کی پارٹی کی مدح سرائی کرتی اور گئے دنوں کی میٹھی یادیں دہراتی رہتی ہیں۔

اس کے علاوہ اور کسی خاتوں لکھاری خصوصاً اگر وہ بلاگر نما مخلوق ہو اور آپ کی تعریف و یاد سے کالم نہ بھرتی ہو، تو ان کے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ نہ تو ہراسمنٹ کہلائے گی نہ اس کے لئے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے نہ ان کو کسی قسم کی مورل سپورٹ کی ضرورت ہے چونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ فوج کے حق میں اور سیاستدانوں کے خلاف لکھتی ہوں یا ہو سکتا ہے تبدیلی کے نام پر انہوں نے بھی کچھ میٹھے خواب دیکھ رکھے ہوں یا ہو سکتا ہے ان کے نظریات سے آپ کی سیاست یا وراثت یا جاگیر کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو!

عزت مآب جناب عالی! اتفاق سے یہ بلاگر نما خواتین بھی روزانہ اسی قسم کی تمام تر ہراسمنٹ سے گزرتی ہیں اگر چہ ان کو وہ ادارے بھی امان نہیں دیتے نہ ان کے حق کے لئے کھڑے ہوتے ہیں جن میں وہ چھاپی جاتی ہیں۔ اور صرف اس لئے ہراساں نہیں کی جاتیں کہ وہ ملک کی دو جماعتوں سے جڑے کوئی خواب نہیں دیکھتیں بلکہ اس لیے بھی کہ وہ جس دیس کے نام سے پہچانی جاتی ہیں اس کے لئے بہت نیک سوچتی ہیں یا اس کی فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتی ہیں، اس لئے کہ وہ عورت کے حقوق چاہتی ہیں، یا اس لئے کہ وہ ملا کے اسلام سے آزادی چاہتی ہیں اس لئے کہ وہ پدرسری معاشرے میں خواتین کو طاقت دینا چاہتی ہیں اس لئے کہ وہ ہر قسم کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔

مجھے یاد ہے میرے ایک کالم جو فوج کے بارے میں نہیں تھا اس میں صرف ایک یا دو لائنوں میں فوج کے حق میں کوئی بات کی گئی تھی اور وہ کالم دو مختلف پلیٹ فارمز پر چھپا تھا۔ ان دونوں پلیٹ فارمز کے سوشل میڈیا پر صرف ان دو لائنوں کے صدقے میں مجھے کوئی پانچ ہزار ننگی گالی سننی پڑی تھی جنرلوں کے نام کے ساتھ۔۔۔ مجھے یاد ہے میں نے ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی ایک تقریر کے خلاف ایک آرٹیکل لکھا تھا اور میرے میسنجر اور پوسٹ پر مولانا حضرات یا ان کے دوستوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر دیا تھا، مولانا حضرات اس کالم کو بے ہودہ تشریحات کے ساتھ اپنی والز پر پوسٹ کرتے اور میرے اور میری تحریر کے بارے میں بے ہودہ کومنٹس کرتے رہے!

مجھے اس قدر ہراساں کیا گیا کہ انہیں دنوں مجھے پاکستان قیام کے لئے جانا تھا تو میں نے حلقہ احباب میں کسی کو خبر نہ ہونے دی کہ کہیں کوئی اسلامی جماعت والا جنت میں جانے کی خواہش میں مجھے یا میرے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے! مگر جناب چونکہ میں ٹھہری ذرہ بے نشاں بلاگر اور میرے نظریات بھی آپ کی خواہشات سے مختلف تو یقیناً میرے ساتھ ہونے والی کوئی بھی حرکت ہراسمنٹ تو نہیں کہلائے گی!

میں نے ایک کالم معاشرے کے ایک نامناسب رویے کے بارے میں لکھا تو یقین کریں ڈاکٹرز، جی ہاں آپ کے معاشرے کے پڑھے لکھے بالا طبقے کے لوگ اس پوسٹ پر چڑھ دوڑے اس پوسٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خواہش میں! مگر ہراسمنٹ یہ بھی نہیں ہو گی کہ ظلم شاید ایک خاص طبقے کے ساتھ ہو تو ظلم بنتا ہے باقی سب کے لئے یہ عام باتیں روزمرہ کے قصے ہیں ان پر صبر کرنا چاہیے، ریت مٹی جیسے طبقے کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

میں نے آج تک جتنے کالم عورت کے حق میں لکھے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس پر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر میں نے گالی نہ کھائی ہو باتیں نہ سنی ہوں، لوگوں نے مجھے غلط، برا، بدکردار ثابت کرنے کی کوشش نہ کی ہو، میرے چہرے، بالوں اور کپڑوں کی طرف انگلیاں نہ اٹھائی ہوں، تمسخر اور تضحیک نہ کی گئی ہو، مگر ہراسمنٹ وہ بھی نہیں جناب کیونکہ مظلوم عورتیں تو صرف وہی گردانی جائیں گی جو لاکھوں کی تنخواہیں لے کر ہراسمنٹ سہتی ہیں وہ جو صرف مفت میں غلط کو غلط کہہ دیتی ہیں وہ تو بیکار مخلوق ہے ان کی ہراسمنٹ پر کون قائمہ کمیٹی بٹھائے؟ کون قائمہ کمیٹی میں ان کا ذکر کرے! کون ان کے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کا سدباب کرے!

جناب عالی! یا تو آپ ہر عورت کے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کی بات کریں یا پھر برائے مہربانی بالکل نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ بھی ہراسمنٹ کرنے والوں کا ساتھ دے رہے۔ آپ عورت کو تحفظ نہیں دے رہے آپ بڑی عورت اور چھوٹی عورت کی جماعتیں تشکیل دے رہے، مفید لکھنے والی عورت اور غیر مفید لکھنے والی عورت، استحقاق زدہ عورت صحافی اور ذرہ بے نشاں عورت بلاگر۔ اپ بھی عورت عورت میں تفریق ڈال رہے کہ جو عورت آپ کے حق میں بولے گی وہ عورت ہے جو خلاف ہو گی وہ عورت نہیں۔ جو عورت بڑے پلیٹ فارم سے بولے گی وہ مظلوم عورت جو اپنے گھر سے بولے گی وہ عام عورت! جناب عالی یا تو اس ملک میں ہونے والی ہر عورت کو عاصمہ شیرازی سمجھیں یا پھر عاصمہ شیرازی کی بات بھی نہ کریں! پسی ہوئی پاکستانی عورت پر مزید ظلم نہ کریں تو عین نوازش ہو گی۔

العارض

ایک بلاگر عورت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).