اسلام آباد کا چڑیا گھر اور بلوچستان کا مقتل


جب سے تصویر دیکھی ہے ایک ماں اپنے بیٹے کی لاش سامنے رکھے ہاتھ اٹھا کر کرب اور رنج و الم کی تصویر بنی آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے، مجھے گمان ہوا کہ شاید آسماں اس شکوے کی تاب نہ لا سکے اور پھٹ پڑے، اذیت، رنج، حسرت، الم اور بے بسی اس ماں کے چہرے پر جم سی گئی ہے۔ اس ماں کے چہرے پر جو وحشت، جو ملال ہے اس کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دل دہلتا ہے، اس تصویر میں وہ درد ہے جو شامی بچے کی ساحل پر پڑی لاش کی تصویر میں تھا۔ یہ صرف ایک تصویر نہیں ایک داستان ہے۔ ظلم اور جبر کی داستان۔ مظلوم ماں کی فریاد پتا نہیں کیا رنگ لائے گی۔ یا یوم حساب تک مؤخرکر دی جائے گی۔

یہ کیسے شقی القلب ہیں جنہوں نے ماں باپ کے سامنے ان کا جوان لخت جگر گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اوئے ظالمو! تمہیں ذرا بھی رحم نہیں آیا۔ جانور کو بھی ماں کے سامنے ذبح کرنے کا حکم نہیں اور تم نے ایک جوان بیٹے کو اس کی ماں کی سامنے بیچ سڑک پر گولیوں سے بھون دیا، تم کیسے انسان ہو، شاید تمہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے، تم انسان نہیں ہو سکتے تم تو انسان کے بھیس میں بھیڑیے ہو۔ یا شاید بھیڑیے بھی تمہیں بھیڑیا کہنے پر برا منا جائیں۔

تمہارے ذمے تو ہماری حفاظت ہے نا، پھر ہم تمھی سے سب سے زیادہ غیر محفوظ کیوں ہیں؟ کبھی ساہیوال میں بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہو اور کبھی تپتی سڑک پر ماں باپ کے سامنے بیٹے کو بھون دیتے ہو۔ کبھی کسی بیٹے کو گھر سے اٹھاتے ہو تو اس کی لاش کسی سڑک کنارے پڑی ملتی ہے اور کبھی تو لاش بھی نہیں ملتی کہ کچھ تو چین آئے۔

سوچتا ہوں ماں نے نو مہینے پیٹ میں رکھ کر اپنے خون سے سینچا ہوگا، کتنی کٹھنائیاں اٹھا کر راتوں کو جاگ کر اس کو بڑا کیا ہوگا، اپنی نیند، چین، آرام، سب تیاگ کر اس کو جوان کیا ہوگا، اپنے لائق فائق بیٹے کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹا ہو گا۔ پڑھا لکھا کر بڑا افسر بنانے کے سپنے دیکھے ہوں گے، سوچا ہو گا میرا ہونہار بیٹا پڑھ لکھ کر گھر کی تقدیر بدل دے گا۔ غربت کے چنگل سے چھڑا لے گا، اس کے سر پر سہرا سجانے کے خواب سجائے ہوں گے، لیکن تم جیسے وحشی نے سب خواب ایک پل میں اس کی آنکھوں سے نوچ لیے، بوڑھے ماں باپ کے سامنے ان کے جوان بیٹے پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے تمہارے ہاتھ نہیں کانپے، ایک نہ دو پوری آٹھ گولیاں!

کیا بگاڑا تھا اس نے تمہارا۔ کوئی پرانی دشمنی تھی اس سے کیا؟ تمہیں اپنے بیٹے یاد نہیں آئے، تمہارے بھی تو بیٹے ہوں گے، تمہاری بھی توکوئی اولاد ہوگی، ایک صاحب اولاد کیسے ایک نہتے نوجوان پر بلا جرم گولیاں برسا سکتا ہے، یہ کرنے کے لئے تو انتہا درجے کی بے رحمی اور سفاکی چاہیے جو تم میں یقیناً بدرجہ اتم موجود ہو گی ورنہ تم یہ کبھی نہ کر پاتے۔

تو سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا! وہی ہوگا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ دو تین دن شور مچے گا وہ بھی صرف سوشل میڈیا پر، اگر دباؤ بڑھا تو شاید وزیراعظم صاحب نوٹس لیں گے (حالانکہ اس کا بھی کوئی امکان فی الحال نظر نہیں آتا) ، دو چار نا معلوم قسم کے وزیر بیان دیں گے، دھول اڑانے کے لئے چند اہلکارمعطل ہوں گے، شاید کچھ کو دکھاوے کے لئے گرفتار بھی کیا جائے گا۔ اور جب دھول بیٹھ جائے گی تو گرفتار اہلکاروں کو سانحہ ساہیوال کے مجرموں کی طرح باعزت بری کر دیا جائے گا۔

جبر کا یہی کھیل ہم نے مشرقی پاکستان میں بھی کھیلا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن خبر آئی کہ وہاں کے رہنے والوں نے اپنا علیحدہ ملک بنا لیا ہے، پاکستان جو کہ بقول شخصے ایک خداداد ریاست ہے، چونکہ ستائیس رمضان المبارک کو وجود میں آیا ہے لہذا کبھی ٹوٹ نہیں سکتا لیکن بد قسمتی سے صرف چوبیس سال بعد ہی دو لخت ہوگیا تھا۔ اب وہی خطرناک کھیل بلوچستان میں کھیلا جا رہا ہے، جہاں دن دیہاڑے لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔ جوان بیٹے دن دیہاڑے دہشت گرد قرار دے کر ماں باپ کے سامنے گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں۔ بچوں کے باپ ملتے ہی نہیں اور جب ملتے ہیں تو کبھی کسی سڑک کے کنارے کسی صحرا یا کسی چٹان پر کٹی پھٹی لاش کی صورت میں۔

اب کوئی ادیب، کوئی شاعر ان تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کا نوحہ کیوں نہیں لکھتا؟ ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم ایک شہر خموشاں میں ہیں جہاں نہ کوئی کچھ کہتا ہے نہ سنتا ہے بس ایک گہرا سکوت ہے، ارے کوئی تو بولو، کچھ تو کہو، کیوں سب چپ ہو!

اسلام آباد ہائی کورٹ دو شیروں کے مرنے کا نوٹس تو لیتی ہے، جو لینا بھی چاہیے لیکن کیا کوئی عدالت اس جوان ناحق موت کا نوٹس لے گی، کیا اس بلوچ کی جان کی قیمت جانور سے بھی کم ہے۔ عدالت ماشاءاللہ بہت طاقتور ہے، تین دفعہ کے منتخب وزیراعظم کو بیک جنبش قلم گھر بھیج سکتی ہے۔ خط نہ لکھنے کے جرم کی پاداش میں دوسرے وزیراعظم کو کھڑے کھڑے سزا سنا کر وزیراعظم کی کرسی سے اتار سکتی ہے، بس سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدالت اب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گی؟ یا ان کا زور صرف بلڈی سویلینز پر ہی چلتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے، کون سی ماں اپنے بیٹوں کو مار دیتی ہے، بیٹے اگر باغی ہو جائیں تو کیا ماں ان کو گولیوں سے بھون دیتی ہے، ماں تو سراپا محبت ہوتی ہے، سراپا قربانی ہے، ماں تو یوں اپنے بچوں کو قتل نہیں کرتی۔

یہ بچے ہمارے ہیں فرض کیجئے اگر یہ بھٹک بھی گئے ہیں بہک بھی گئے ہیں تو ان سے مکالمہ کیجئیے، ان سے بات کیجئیے، ان کی بات سنئیے، ان کو یوں تو نہ ماریے، ایسے نا حق قتل تو مت کیجئے ایسا نہ ہو کہ ہمیں پھر ایک سانحے کا سامنا ہو ایسا نہ ہو کہ یہ خون اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).