اعتراف!


اس نے فون پر یہ ہی کہا تھا کہ اتنا زاروقطار کیوں رو رہی ہو۔ تم تو کبھی نہ روئی نہ پریشان ہوئی ہو۔ وہ بار بارٹوٹے دل کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور کہنے لگی ؛

کیا کسی نے کچھ کہا ہے۔
میں نے کہا۔ بات تو یہ ہے کہ مجھے کسی نے کچھ کہا ہی نہیں۔
دل میں رہتا بھی نہیں دل سے نکلتا بھی نہیں
غم ہی کچھ ایسا ہے کہ آنکھوں سے چھلکتا بھی نہیں
تو پھر کیا ہے؟

تم تو موم کی طرح نرم ہو چکی ہو، جذبوں کی تھوڑی سی حدت سے پگھل جاتی ہو۔ گرم سرد موسموں میں چہکتی ہو، مسکراتی ہو۔ تمہاری بات سننے کے لئے لوگ گھنٹوں بیٹھے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ وہ تمہاری پازیٹیو، سھدا یک اور سکون بخش انرجی لیول میں اس قدر گرفتار ہو جاتے ہیں کہ تمہارے ”روحانی محور“ میں داخل ہو کر مسلسل گردش کرتے رہتے ہیں۔

میں کیا بتاتی میں اپنی کہانی پڑھ رہی ہوں ؛

میں نے چاہا کہ کہانی کے تسلط سے باہر نکل کر خوش رنگی اور خوب روئی کو اپنے اندر بساؤں۔ میں نے اپنی عنائیت پر اکتفا نا کیا۔

بچپن میں دیگر تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کمرے میں لگے مائیکل جیکسن کے پوسٹر کی چھبھ، نا زیہ حسن اور بونئیم کے نغموں کی رسیا رہی۔ محدود وسائل میں اندیشوں کے گھن کو چاٹتی رہی۔ میں نے سوچا برسوں کی طویل مسافتوں کو جلد طے کر لوں۔

کبھی گردش حیات میں معصومیت کو رقص کر تے دیکھا۔

اس بھاگ دوڑ میں کیسے کیسے بے لاگ لمحے آئے ؛کبھی طاقت کے ذعم میں عجز و شرمندگی کو دم توڑتے دیکھا۔ ہیرے، سونے اور چاندی کی چمک میں مٹی کو ہاتھ لگاتی تو سونا بن جاتی۔ انسانی معیار کی حد کو میں نے اور میری بصیرت نے چھو لیا۔ غم اور خوشی کو چلتا پھرتا دیکھنے لگی۔

مسئلہ یہ تھا کہ شخصیت سے ذات کو الگ کیسی کرتی۔ اس کی جدو جہد کی راہ پر کیسے چلوں۔ وہ کہتے کہ زندہ رہنے کے لئے جدو جہد کرتے رہے۔ موت سے بچنے کے لئے جدو جہد کی۔ غربت کے غم اور بوجھ کو کم کرنے کے لئے جدو جہد کی۔ انسان بھول جاتا ہے کہ یہ ہماری جدو جہد نہیں کہ ہم شاہی مسند پر بیٹھے ہیں، ہم زندہ ہیں، ہم رجھے ہیں، آزاد ہیں، با شعور ہیں ٹھنڈی ہوا ہیں، چمکتا ستارہ ہیں، برستے بادل کی ٹکڑی ہیں، بہار کا جھونکا ہیں، روشنی ہیں، فیض ہیں، غمخوار ہیں، امن کی فاختہ ہیں، علم و دانش کی معراج ہیں، قائد ہیں، اور جو کچھ ممکن حیات ہے وہ ہیں ؛ سچ پوچھیں، ہم تو ایک ذرہ ہیں جس پر نگاہ پڑی رہی تو گردش میں رہا۔

سوال یہ ہے کہ پھر ”میں“ کیا ہوں؟ کیوں ہوں؟ ؛ جس شخص نے ”ذات“ کوسمجھ لیا تو پھر اطلاع کا از خود نظام شروع ہونے لگا۔ دل توڑنے والے توڑتے رہے اسے جوڑنے کا فارمولا عطا کر دیا گیا۔ نا انصافیوں کو مجبور کی مجبوری سمجھ کر دیکھا۔ مائیکل جیکسن کو تمام احتیاطوں کے باوجود پل بھر میں مرتے دیکھا۔ نازیہ حسن کو چڑھتی جوانی میں مرتے دیکھا۔ بونئیم کے نغموں کی تاثیر الٹی رہی۔

یہ بھی دیکھا کہ اس شخص نے چاہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سنائی نا دے۔ جو کچھ کر رہے ہیں دکھائی نا دے۔ وہ بہرہ اور اندھا ہونا چاہتا تھا۔ جب کہ اندھا روشنی کا فقیر تھا۔ بہرہ قوت سماعت کی فریاد کرتا تھا۔ ایک زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا اور دوسرا چل کر قبر میں دفن ہونے کو تیار تھا۔

حسن مٹی میں ہوتا تو سب حسین ہوتے۔ عمل کے درجوں سے حسن کے درجات کا پیمانہ ناپا جاتا ہے۔ معلوم ہو ا کہ تصویریں بنانے، پو سٹر لگانے سے، تصویریں بنانے سے، رنگ بھرنے سے، لفظ لکھنے سے تقدیریں بدلی نہیں جا سکتیں اور خواب دیکھنے سے تعبیر آگہی نہیں ملتی۔

میرا ایک کلاس فیلو بچپن سے ”چے گویرا“ جو انسانیت کے لئے اجنبی لوگوں کی لڑائی لڑتا رہا ؛کی تصویر اپنی کاپیوں پر لگا کر اپنے آپ کو ترقی پسند لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ کلاس فیلو بے چارہ صرف اپنی ترقی کو ہی پسند کرتا رہا۔

راز یہی ملا کہ جب وباؤوں میں بچے رہیں اور زہریلا سانپ بھی کاٹنے سے منہ موڑ لے، تو پھر ”اعتراف“ کا نسخہ ء رحمت کام آنے لگا۔ اعتراف دراصل توبہ کا پہلا در ہے۔ پھر سلسلہ وار اندیشوں کو حوصلے، بے نیاز کو خیر، با مقصد کو مقصد مل جاتا ہے۔

بس میں اعتراف کرتی ہوں کہ موت کو زندگی اور زندگی کو موت ملتی ہے۔ خوشی کو غم اور غم کو خوشی ملتی ہے ؛ تب ہی تو میں اندیشوں سے نکل کر توبہ کو سوچتی، سمجھتی اور پڑھتی ہوں۔

نا سمجھ! یہ بہنے والے آنسو نہیں، خوشی کے موتی ہیں ؛ جو نصیبوں سے ملتے ہیں ؛ اور میں وہ خوش نصیب ہوں۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).