مسترد شدہ زندگی


تم نے فورم میں والدین کا نام نہیں لکھا بتاؤ میں نام لکھ دوں۔ کاؤنٹر پر موجود ریسپشینسٹ نے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے سے کہا۔ وہ میں وہ لڑکا ہکلانے لگا۔ کیا یہ میں وہ بتاؤ۔ آپ مجھے فورم دیں دے میں خود لکھ دیتا ہوں۔

٭ ٭ ٭

نازو کوئی محبت کرے تو تمھاری طرح جسے کسی کی پروا نہ ہو۔ تمھیں جب بھی بلاتا ہو ں دوڑی چلی آتی ہو۔ میری جیسی نہیں تمھاری جیسی یہ تمھاری محبت کا اثر ہے کہ تم آواز دیتے ہو اور میں دوڑی چلی آتی ہوں۔ نادر اور نازو دونوں اس وقت پارک کے ایک کونے میں دنیا و مافیہا سے بے خبر گفت و شنید کرنے میں مصروف تھے۔ یہ جانے بغیر کہ ان کے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔

٭ ٭ ٭

فاروق آپ نے فورم پر امی، ابو کا نام نہیں لکھا چوتھا کالج اور وہی سوال۔ ان دونوں کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ ڈیتھ بھی ہو گئی ہو تب بھی نام تو معلوم ہوں گے دونوں کے۔ کیا امی، ابو کے نام کے بغیر مجھے داخلہ نہیں مل سکتا میری اپنی قابلیت کوئی معنی نہیں رکھتی؟ :مجھے اپنی ذمہ داری نبھانی ہے اور آپ کا فورم آدھورا ہے۔ کیونکہ میں خود آدھورا ہوں اس نے بڑبڑاہٹ کی۔ کچھ کہا آپ نے فاروق سے کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی ریسپشینسٹ نے پوچھا۔

جی نہیں کچھ نہیں۔ آپ مجھے فورم واپس کردیں میں بھر دیتا ہوں۔ اس کی ہمت جواب دے چکی تھی اس کے کئی خواب تھے جنھیں وہ پورا کرنا چاہتا تھا مگر اب اسے احساس ہورہا تھا کہ اس کا کوئی خواب نہیں پورا ہو سکتا وہ آج یہ بات جانا تھا کہ کیوں لوگ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں قصور وار بے قصور کہلاتا ہے اور بے قصور سزا پاتا ہے وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی سزا کا مرکب ٹھرایا جاچکا تھا۔

٭ ٭ ٭

آج صبح سے اسے لگ رہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس کے امید سے ہونے کی تصدیق ہو چکی تھی۔ وہ یہ بات نادر کو جلد از جلد بتانا چاہتی تھی تاکہ کسی فیصلہ پر پہنچ سکے حتی کہ لیڈی ڈاکٹر اسے یہ بات باور کرواچکی تھی کہ اسقاط حمل کا مطلب زندگی سے ہاتھ دھونا ہے۔ مگر شاید اسے کوئی امید تھی نادر سے تبھی وہ نادر سے ملنے کو بے چین تھی۔

نادر تم مجھ سے شادی کرلو میں ماں بننے والی ہوں۔ اس کا یہ کہنا تھا اور نادر ہتھے سے اکھڑ گیا۔ شادی وہ بھی تم سے جسے اپنی عزت کا خیال نہیں، جسے اپنی نفس پر قابو نہیں، جس نے میری جسمانی تسکین کے لیے اپنا آپ میرے حوالے کر دیا اس سے شادی، کبھی بھی نہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب نازیہ نے اپنی زندگی کا فیصلہ کرڈالا۔

٭ ٭ ٭

اللہ نظر بد سے بچائے یہ بچہ کتنا پیارا ہے۔ میں اس کا نام فاروق رکھو نگی شبانہ۔ یہ میرا ہے اسے میں پالونگی۔ ثریا تمھیں بچے اتنے اچھے لگتے ہیں تم خود شادی کیوں نہیں کرلیتی؟ شادی کر کے میں کتنے بچوں کی ماں بن جاؤنگی دو، چار یہاں تو میرے اتنے سارے بچے ہیں۔

میں سوچتی ہوں کہ کہیں اللہ ہماری پکڑ نہ کرلے؟ تم کہنا کیا چاہتی ہو شبانہ ثریا نے فاروق کو پچکارتے ہوئے کہا۔ تمھیں کیا لگتا ہے ثریا جو بچے ہمیں پالنے میں ملتے ہیں وہ جائز ہوتے ہیں کوئی اپنا جائز بچہ پالنے میں کیوں ڈالے گا۔ مجھے ابھی بھی تمھاری بات نہیں سمجھ آئی پکڑ، جائز، ناجائز کہنا کیا چاہتی ہو۔ سوچو اگر یہ بچے ناجائز ہوتے ہیں تو ہم انھیں پالتی ہیں بڑا کرتی ہیں کیا ہم اس طرح زنا کو فروغ نہیں دیتی ہیں۔ زنا کبیرہ گناہ ناقابل معافی اور اگر ہماری وجہ سے معاشرہ میں زنا پھیل رہا ہے تو اللہ ہماری بھی تو پکڑ کر سکتا ہے۔ شبانہ میں یہ سب سوچنا ہی نہیں چاہتی مجھے بچے اچھے لگتے ہیں تو لگتے ہیں کیا، کیوں، کب، کیسے میں یہ سب سوچنا ہی نہیں چاہتی۔

٭ ٭ ٭

ایسا کرے آپ مجھے ڈرائیور رکھ لے۔ کیوں؟ بیٹا تم نے تو کالج میں داخلہ لینا تھا۔ ہاں لینا تھا مگر نہیں ہوسکا ماں، باپ کے نام کا خانہ خالی تھا۔ تم میرا نام لکھ دیتے بیٹا۔ ابو یہ بھی سوچا تھا اور ہمت کر کے پوچھ بھی لیا تھا آپ کو پتا ہے مجھے جواب کیا ملا کہ اگر ایسا ہونے لگا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنے فارموں پر آپ کے ابو کا نام ہوگا۔ ابو جب ہماری حقیقی والدین ہمیں ٹھکرا دیتے ہیں تو اس دنیا کو ہمیں ٹھکرانے کا آٹومیٹک سرٹیفکٹ مل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).