سید نظر زیدی کی یاد میں


جن ادیبوں اور شاعروں نے بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا، ان میں سید نظر زیدی کا نام خاصا نمایاں ہے، تاہم ایک زمانے سے ان کا ذکر نہیں ہوا، جس کے سبب ان کا نام اور کام عام لوگوں اور آج کے نئے لکھنے پڑھنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ سید نظر زیدی ایک ادیب، صحافی، شاعر اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ اپریل 1917 میں بجنور ( بھارت ) میں پیدا ہوئے اور جون 2002 میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ مختلف ادوار میں وہ مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔

قومی کتب خانہ لاہور کے شائع کردہ بچوں کے رسالے ”ہدایت“ کے طویل عرصے تک مدیر رہے۔ اس دوران میں انہوں نے بچوں کے لئے کافی کچھ تحریر کیا اور اور نئے لکھنے والوں کی بھی خوب حوصلہ افزائی کی۔ ”ہدایت“ بند ہوا تو وہ کئی اور اداروں سے وابستہ رہے جن میں ماہ نامہ ”اردو ڈائجسٹ“ اور ”ادارہ معارف اسلامی“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ کچھ عرصے کے لئے وہ پاکستان کے معروف فلمی ادارے ”شباب پروڈکشنز“ کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔

شاعری میں وہ ابتدا میں تاجور نجیب آبادی سے اصلاح لیتے رہے۔ ان کو بچوں کے ادب میں نمایاں خدمات سرانجام دینے کی بنیاد پر صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی بھی ملا۔ ان کی کتابوں میں ”نورً علیٰ نور“ ( نعتیہ مجموعہ) ، ”حبہ خاتون“ ، ”اتا ترک“ ، ”اقبال گہوارۂ تربیت میں“ ، حکایت خلفائے راشدین ”،“ پاکستان کے نامور فرزند ”،“ اسلام کے نامور فرزند ”،“ نئے چراغ ”،“ وادی ”،“ زخمی روحیں ”،“ مہکتے پھول ”،“ ہمارے قائد اعظم ”اور“ نوائے خامہ ”( شعری مجموعہ) قابل ذکر ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کلثوم طارق برنی نے“ سید نظر زیدی: احوال و آثار ”کے عنوان سے مقالہ لکھ کر علامہ اقبال اوپن یونیو رسٹی، اسلام آباد سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ جیسے پہلے ذکر ہو چکا وہ شعر بھی کہتے تھے۔ نمونۂ کلام کے طور پر ان کے چند اشعار دیکھئے :

برق کی زد پہ شبستاں ہے خدا خیر کرے
غم ہستی غم جاناں ہے خدا خیر کرے
کیف مینائے غزل ہو کہ بہاروں کا شباب
ہر جگہ ماتم انساں ہے خدا خیر کرے
جس کی بے راہ روی سے ہوئے محروم شکیب
وہی دل اپنا نگہباں ہے خدا خیر کرے
ایک اور غزل کے دو شعر دیکھئے :
محبت کی کوئی منزل نہیں ہے
محبت موج ہے ساحل نہیں ہے
ہے دل کو اعتبار اس کی وفا کا
مگر کچھ اعتباردل نہیں ہے

میرے لئے وہ ایک محسن اور مربی کا درجہ رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ ان کا شفقت کا ایک رشتہ تھا جو میرے سکول کے زمانے سے شروع ہوا اور ان کی وفات تک کم و بیش تیس سال تک استوار رہا۔ بیچ میں کبھی کبھی کچھ عرصے کے لئے تعطل آتا رہا مگر تعلق منقطع نہیں ہوا۔ وہ خط کا جواب دینے میں بہت مستعد تھے۔ خط ملتے ہی جواب تحریر کر دیتے۔ میری ادبی تربیت میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ میں نے سکول کے زمانے میں کچھ لکھنا لکھانا شروع کیا تو جہاں والد مرحوم نے تربیت اور حوصلہ افزائی کی، وہاں تحریروں کی اشاعت کے لئے نظر زیدی مرحوم نے خصوصی کرم کیا، چنانچہ میرے کئی مضامین ”ہدایت“ میں شائع ہوئے۔ اور اس میں ان کی حوصلہ افزائی کا خاص طور پر دخل تھا۔

کالج کے زمانے میں کچھ شعری تک بندی کا شوق چرایا تو میں نے ایک دو غزلیں ان کو بھیجیں کہ وہ اپنی رائے سے نوازیں۔ انہوں نے لکھا کہ اگر میں محنت کروں، کلاسیکل اور جدید شعرا کی شاعری کا گہرا مطالعہ کروں اور مشق سخن کروں تو اس میدان میں کامیابی کا امکان موجود ہے۔ ا نہوں نے مقدور بھر شاعری کی اصلاح کی پیش کش بھی کی جو میں نے شکر یے کے ساتھ قبول کر لی۔ چنانچہ میں وقتاً فوقتاً اگر کچھ لکھتا تو ان کو بھیج دیتا۔

وہ مناسب مشورہ دیتے، حسب ضرورت کچھ کانٹ چھانٹ کر دیتے، کبھی غزل یا نظم کو مکمل رد کر دیتے کہ دوبارہ کوشش کروں اور کبھی بالکل تبدیل نہ کرتے۔ یوں یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔ میری شاعری بھی بے موسم کی بارش کی طرح تھی۔ کبھی یہ سلسلہ بلا تعطل جاری رہتا اور کبھی مہینوں بلکہ سالوں تک خشک سالی کا سماں رہتا اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ میری شاعری اخبارات و رسائل میں کبھی کبھی چھپتی رہی مگر میں نے کبھی سنجید گی سے شعری مجموعہ چھپوانے کا نہ سوچا، تاہم احباب کے اصرار پر کچھ سال پہلے تقریباً چالیس سال کی شاعری کا ایک انتخاب ”حصار خواب“ کے نام سے شائع کروا دیا مگر افسوس اس وقت زیدی صاحب حیات نہیں تھے۔

میری تعلیمی کارکردگی کے بارے میں بھی وہ آگہی رکھتے اور ہمیشہ مفید مشورہ دیتے۔ 1979 میں میں نے امتیاز کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا تو انہوں نے اظہار مسرت کیا۔ 1980 میں کالج میں لیکچررشپ ہوئی تو انہوں نے مبارک باد کا خط لکھا اور مشورہ دیا کہ اب ہمت کرکے پی ایچ ڈی بھی کر لیں۔ کچھ عرصے کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے مجھے حکومت پاکستان کی طرف سے میرٹ سکالرشپ ملا تو میں نے اس کے لئے انگلستان کا انتخاب کیا۔ وہاں سے بھی ہمارے درمیان رابطہ رہا۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل، واپسی اور پھر یونیورسٹی میں ملازمت ہوئی تو ان سے رابطہ برقرار رہا۔

ایم اے میں میں نے اردو غزل کے نامور شاعر ناصر کاظمی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ اس میں بہت سی تبدیلیوں اور اضافوں کے بعد 2001 میں میں نے اسے کتابی شکل میں ”اجنبی مسافر، اداس شاعر“ کے نام سے شائع کرایا تو اس کی ایک کاپی زیدی صاحب کو بھی بھیجی۔ انہوں نے تفصیلی مطالعے کے بعداپنی رائے سے نوازا اور حوصلہ افزائی کی۔ 2002 میں غالباً مئی کے آخر میں میں نے ان کو حسب معمول خط لکھا، جس کا جواب ان کے صاحب زادے خالد زیدی نے جون کی کسی تاریخ کو لکھا اور بتایاکہ ان کے والد چند روز پہلے انتقال کر چکے ہیں اور یوں وہ تعلق جو تیس سالوں سے زائد عرصے پر محیط تھا، ختم ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ا للہ ان کو غریق رحمت کرے، آمین۔

ہمارے درمیان بیسیوں خطوط کا تبادلہ ہوا اورکوئی ایک بھی مثال نہیں ہے کہ انہوں نے میرے خط کا جواب نہ دیا ہو۔ ان میں سے اکثر خطوط بوجوہ محفوظ نہ رہ سکے، تاہم ان میں سے صرف دو خطوط میں یہاں نقل کر رہا ہوں، اس خیال سے کہ اس شخصیت کی یادوں میں کچھ لوگوں کو بھی شریک کر سکوں جس کی میری نظر میں بہت اہمیت ہے۔ زندگی اور کتاب زندگی کے درس کے لئے ان کی ذات میرے لئے ایک مشعل راہ کی طرح ہے اور ہو سکتا ہے، ان خطوط میں اب بھی کسی اور کے لئے کوئی سبق موجود ہو۔

پہلے خط کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہ عمومی طور پر پر امن علاقہ ہے۔ چوری چکاری، قتل اور ڈاکے کی وارداتیں وہاں شاید ہی کبھی ہو ئی ہوں۔ بہت سال پہلے وہاں ایک مرد اور خاتون کا قتل ہوا۔ قاتل رشتے داروں میں سے ہی تھا۔ میری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ میرے لئے وہ واقعہ اور منظر بہت پریشان کن تھا جب بھی سوچتا، مقتولین کی لاشیں سامنے آ جاتیں اور میں عرصے تک اسی کیفیت میں رہا۔ اسی پریشانی کے عالم میں میں نے نظر زیدی صاحب کو خط لکھا اور اپنی ذہنی کیفیت کا ذکر کیا۔ جواب میں انہوں نے مجھے مثبت سوچ اپنانے کا مشورہ دیا اور بہت عمدہ طریقے سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی اور میرا خیال ہے کہ اس طریقے سے ہر قسم کے حا لات میں سکون اور اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خط دیکھئے :

637۔ این
سمن آباد۔ لاہور
28 مئی 1975
عزیزم! السلام علیکم

آج کی ڈاک سے آپ کا خط ملا۔ آپ کی ذہنی پریشانیوں کا پڑھ کر افسوس ہوا۔ جو واقعہ آپ نے درج کیا ہے، وہ واقعی پریشان کر دینے والا ہے لیکن اس خوف کو اپنے اوپر وارد کر لینا کوئی موزوں بات نہیں۔ آپ نے چونکہ اس سلسلے میں مشورہ مانگا ہے، اس لئے عرض کر رہا ہوں۔ اس نوعیت کی نفسیاتی الجھنیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان اس کائنات کو اس کے خالق کے بغیر تصور کیے ہوئے ہو۔ اس کے مقابلے میں اگر اللہ پاک کی ذات اقدس پر ویسا ایمان ہو جیسا ایک سچے مسلمان کا ہونا چاہیے تو پھر اسے ہر حالت میں تسکین رہتی ہے کہ میرا خدا سب سے زیادہ طاقت ور اور با اختیار ہے اور میرا نگران اور محافظ ہے۔

میرے نزدیک آپ کی جملہ پریشانیوں کا علاج صرف یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی گزارنے کا عزم کر لیجیے اور اس ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ زندگی کے میدانوں میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہ اپنے فطری بہاؤ کے مطابق ہیں اور اللہ پاک ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس سلسلے میں ہماراکام صرف یہ ہے کہ جان بوجھ کر کسی برائی میں شامل نہ ہوں اور خدا نے اگر طاقت دی ہو تو برائی کو روکنے کی کوشش کرتے رہیں۔ یہ طرز زندگی اختیار کرنے سے نہ صرف پریشانیوں سے نجات ملے گی بلکہ کامرانیوں کے دروازے بھی وا ہوں گے۔ آپ کی صحت و سلامتی کے لئے دعائیں اور اپنے لئے دعا کی استدعا۔

نا چیز
نظرزیدی

دوسرے خط کا صرف ایک حصہ نقل کر رہا ہوں۔ انہوں نے یہ خط، جیسے کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، بطور لیکچرر میرے تقرر پر لکھا تھا۔

29 /ا و
عوامی فلیٹس، ریواز گارڈ ن
لاہور
عزیزم، السلام علیکم

آج کی ڈاک سے 26 فروری 1980 کا لکھا ہوا خط ملا۔ آپ کی شاندار کامیابیوں کا حال پڑ ہ کر دلی مسرت حاصل ہوئی۔ آپ نے کرم کیا کہ اپنی اس کامیابی میں میرا نام بھی شامل کیا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، البتہ اس میں شک نہیں کہ آپ نے ہمت سے کام لیا، محنت کی اور ا للہ پاک کی بارگاہ سے اس کا انعام پایا۔ میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ لیکچرر شپ کی اس اسامی کو اپنی منزل نہ سمجھئے۔ ایک ہلہ اور ماریں گے تو آسانی سے پی ایچ ڈی بھی کر لیں گے۔

میری درخواست ہے کہ گاہے گاہے اپنی خیریت لکھتے رہئے۔ میں خود خط لکھنے میں مستعدی کا وعدہ کرنے سے معذور ہوں، خاصے ہنگاموں میں گھرا رہتا ہوں۔

دعاؤ ں کا طالب
نظر زیدی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).