اے چاند یہاں نہ نکلا کر


\"masoom-rizvi\"قوم کو یہ حقیقت سمجھنی چاہئے کہ غریب ترین ملک کا امیر ترین وزیر اعظم ہر دم غریبوں کی حالت سدھارنے کی فکر میں گھلا جا رہا ہے، بھٹو دور میں صنعت سرکاری تحویل میں جانے کے بعد سڑک سے شروع ہونے والا سفر لندن کے مے فیئر فلیٹس تک پہنچ گیا، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پانامہ کیس کا عدالت میں جانا درحقیقت سیاستدانوں کا پارلیمنٹ پر عدم اعتماد ہے۔

غریب ترین عوام کی نمائندگی کرنے والے ننانوے فیصد قائدین نے کبھی غربت کی زندگی تو کجا ایک گھنٹہ بھی نہیں گزارا ہو گا، سیاسی قائدین کا غربت سے متعلق علم وزرا کی بریفنگ اور عالمی بنک کے اعداد و شمار سے زیادہ نہیں، پارلیمنٹ کو ہر دم سپریم اتھارٹی قرار دینے والے سیاستداں سیاسی مسائل کے لئے میدان کا رخ بھی کر لیتے ہیں اور عدلیہ کا سہارا بھی لیتے ہیں اگر اعتماد نہیں کرتے تو اس ایوان پر جس کے دم پر وہ قائد بنے پھرتے ہیں۔ چونکہ پانامہ کا معاملہ عدالت میں ہے لہٰذا اس پر تجزیات سے گریز کرتے ہوئے صرف دلچسپ مراحل پر ایک نظر ڈالتے ہیں، فی الوقت پانامہ لیکس کیس ایک پر تجسس ڈرامے کی طرح آگے بڑھ رہا ہے، ناظرین کے لئے ہر موڑ پر ایک نیا اور چونکا دینے والا انکشاف، دلچسپیوں سے بھرا کوئی البیلا کردار، اب قطر کے مشہور زمانہ شہزادے نے ڈرامے کو نیا رخ دے دیا، حسن نواز کے رضاکارانہ انٹرویو سے شروع ہونے والی کہانی سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے، تین نسلوں پر پھیلی دادا حضور سے پوتوں تک کی اس داستان میں بہت کچھ مرچ مصالحہ ہے، لیکن ابھی اس بھید بھری کہانی میں آگے بہت کچھ باقی ہے۔

پانامہ لیکس ڈرامے میں اتنا سسپنس ہے کہ ہالی ووڈ کے ڈائریکٹر الفریڈ ہچکاک کی یاد تازہ ہو گئی، جیسے جیسے کہانی آگے بڑھ رہی ہے وزیر اعظم کا خاندان موضوع بحث بنتا جا رہا ہے، بیٹے، بیٹیاں اور اب نوبت بڑے میاں صاحب تک جا پہنچی ہے۔ حسن اور حسین نواز کے انٹرویو، وزیر اعظم کی تین تقریریں جس میں پارلیمنٹ سے خطاب بھی شامل ہے،کلثوم نواز کا بیان، ٹی وی پروگرام میں مریم نواز کا انٹرویو اور پھر لگاتار ٹوئٹس۔ چوہدری نثار، خواجہ آصف اور دیگر انجان دوستوں کا اظہار خیال، اگر تمام ثبوت و شواہد چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف ان بیانات سے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اچھا خاصا آدمی سائیکو بن جائے بالکل ہچکاک کی فلم کی طرح۔ وکیل بدلے جا رہے ہیں اور ثبوت و شواہد بھی، ایمانداری کی بات ہے کہ اس کیس کو سمجھنے کے لئے کوئی اسٹیفن ہاکنگ جیسا دماغ درکار ہے۔

وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ والد حضور نے دبئی میں اسٹیل مل کی بنیاد رکھی پھر فروخت سے لندن کے بیش بہا فلیٹس 2006 میں خریدے پھر یہ سامنے آیا سعودی عرب کا کاروبار لپیٹ کر یہ فلیٹ حاصل کیے، ابھی کچھ دن پہلے یہ پتہ چلا کہ قطر میں سرمایہ کاری کی تھی اور فلیٹس کاروباری معاہدہ ختم ہونے پر حصے میں آئے۔ کلثوم نواز، چوہدری نثار اور خواجہ آصف کہتے ہیں فلیٹس تو 20، 22 سال سے موجود ہیں، مناسب ہے کہ پورا خاندان پہلے متفق ہو جائے کہ ہوا کیا تھا پھر ماضی کو حسب منشا طے کر لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ وزیر اعظم کے بقول بھٹو نے جب صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لیا تو کوڑی کوڑی کی محتاجی تھی اور اب ماشااللہ 40 سال میں ایک ملٹی بلین ڈالر سلطنت کھڑی ہو گئی۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھے گی وزیر اعظم کا خاندان کچھ اور ثبوت بھی پیش کرے گا۔ کیا یہ بتایا جائے گا کہ رقم لندن کس راستے، کس بینک کے توسط پہنچی۔ برطانیہ میں بہرحال ذرائع آمدن ظاہر کیے بغیر یہ سودا طے ہونا نا ممکن ہے۔ بہرحال یہ تمام معاملات تو سپریم کورٹ نے طے کرنے ہیں، ابھی آگے بہت سے نئے کردار اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب سے گھریلو تعلقات ہیں، قطر کے شہزادے کے ساتھ کاروباری شراکت، ایک سمدھی ریڈکو والے سیف الرحمان ہیں جو اسی قطری شہزادے کے بزنس پارٹنر ہیں جو پاکستان میں کئی بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ ایک سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہیں جن کے ییٹوں کی بیش قیمت جائیداد کی متحدہ عرب امارات کی زینت ہیں۔ متعدد مشہور سیاستدانوں کے کاروبار بیرون ملک ہیں، بچے بیرون ملک، مفادات بیرون ملک اور عوام کے لئے سبق یہ ہے کہ مادر وطن سے محبت کی جائے۔ پاکستان کے لئے جیا جائے اور مرا جائے۔ اس منافقت بھری سیاست پر ایک بار نہیں سو بار لعنت، سچ تو یہ ہے کہ پاکستان ان سیاستدانوں کے دم پر نہیں بلکہ عوام کے بل پر قائم ہے جو جیتے بھی پاکستان کے لئے ہیں اور مرتے بھی۔ جن کی ہر سانس ملک سے وابستہ ہے، جن کی ہر دھڑکن وطن عزیز کی خاطر ہے۔

متوسط طبقے کے عام آدمی کی حیثیت سے سوچیں تو یہ نہایت بھیانک اور تلخ تجریہ ہو گا کہ عدالت اور پورے ملک میں خاندان کا نام اچھلے، بیٹے، بیٹیاں جوابات دیتے پھرے، جوابات بھی ایسے جس پر خود کو بھی یقین نہ آئے، مگر کیا کیا جائے کہ پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں، دولت و شہرت پائیدار اور عزت آنی جانی چیز سمجھی جاتی ہے۔ ملک عزیز میں سیاسی نظام کچھ اس طرح بن چکا ہے کہ غریب آدمی کارکن تو بن سکتا ہے مگر رہنما کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا، سیاسی رہنما صنعتکار ہو سکتا ہے، جاگیردار اور وڈیرہ ہو سکتا ہے، کوئی پیر، گدی نشین، کوئی کاروباری مگر کوئی عام شہری یا کارکن کا قائد بننے کا تصور محال ہے اور اگر بھولے بسرے کوئی یہ مراحل طے کر لے تو جب تک اشرافیہ کا اعزازی رکن نہ بن جائے عزت و وقعت سے محروم رہتا ہے۔ سیاسی کارکن یا عوام کا کام ہے نعرے لگانا، جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرنا، رہنمائوں کی خاطر جیل کاٹنا، وقت پڑ جائے تو جان کی قربانی دینا، عوام کا دم بھرنے والے سیاسی قائدین ایسی ہر آفت سے محفوط رہتے ہیں۔

بات صرف ن لیگ تک محدود نہیں، سرے محل ہو یا این ایل سی اسکینڈل، اصغر خان کیس ہو یا ڈی ایچ اے لاہور مقدمہ، معجزانہ طور پر سارے مقدمات بے معنی اور آئین کی ساری دفعات بے مقصد ہو جاتی ہیں اور سنگین جرائم میں ملوث سیاسی رہنما کچھ عرصے بعد اسی تزک و احتشام سے قیادت کے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں، یہ نظام کون بدلے گا؟ کیا وہ سیاستدان جو اسی نظام کے خالق اور پروردہ ہیں۔ معاف فرمائیے گا یہ سیاستدان کسی جونک کی طرح ہیں جو عوام کے خون پر پل رہے ہیں، یقینی طور آج نہیں تو کل، یہ سڑتا، گلتا بدبودار نظام پاکستان کے عوام بدلیں گے، جو سب دیکھ اور سمجھ رہے ہیں، انتخابات دور نہیں، ایسی تمام جونکوں کو نشان عبرت بنا ڈالیں گے جو عوام کی طاقت پر انہی کا خون چوس رہی ہیں۔ لیکن اب خود ہی جاگنا ہو گا کیونکہ آپ کو جگانے والے سارے تھک ہار کو سو چکے، ان میں ایک دیوانہ جالب بھی تھا جو جگاتے جگاتے خاک کی چادر اوڑھے کب کا آنکھیں موند چکا ہے:

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں

ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں

یہاں الٹی گنگا بہتی ہے

اس دیس کے اندھے حاکم ہیں

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments