غرب اردن کا اسرائیل میں مجوزہ انضمام: فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیاں کیوں پائی جاتی ہیں؟


اسرائیلی بستیاں

کئی آبادکاروں کا مؤقف ہے کہ انھیں یہ زمین خدا نے دی ہے

اسرائیل کی پارلیمان میں اس حوالے سے ووٹنگ کی جائے گی کہ کیا فلسطینی سرزمین پر موجود اسرائیلی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیتے ہوئے اپنی ریاست میں شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں۔

زیادہ تر ممالک کا کہنا ہے کہ یہ بستیاں غیر قانونی ہیں مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے۔

تو یہ بستیاں آخر کیا ہیں، یہ کہاں پر ہیں اور اگر فلسطینی اپنے علاقوں میں ان کے قیام کے مخالف ہیں تو یہ پھل پھول کیسے رہی ہیں؟

امریکی پشت پناہی

اقوامِ متحدہ کے زیادہ تر ممالک اور یورپی یونین کا کہنا ہے کہ غربِ اردن میں قائم اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ امریکہ سرکاری طور پر اس مؤقف سے متفق تھا۔

مگر نومبر 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ اب ان بستیوں کو غیر قانونی تصور نہیں کرتے۔ امریکہ کی حمایت سے اسرائیل کی پارلیمان اب اس حوالے سے ووٹنگ کر سکتی ہے کہ کیا اسرائیل انھیں اپنے ملک میں شامل کر سکتا ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مودی کا اسرائیل کا دورہ ‘تاریخی’ کیوں ہے؟

غربِ اردن کی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عہد

اسرائیل کا مغربی کنارے پر گھروں کی تعمیر کا اعلان

لاکھوں اسرائیلی فلسطینی علاقوں میں کیوں رہتے ہیں؟

فلسطینی ایسے کسی بھی انضمام کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس سے فلسطینی وہ علاقہ کھو بیٹھیں گے جسے وہ فلسطینی سرزمین تصور کرتے ہیں اور صرف ٹکڑیوں میں موجود چھوٹا سا علاقہ باقی بچے گا۔ فلسطینیوں کے نزدیک یہ علاقہ مستقبل میں ان کے ملک کے لیے اہم ہو گا۔

ان بستیوں کی حیثیت سے قطع نظر یہ کافی عرصے سے موجود ہیں اور پھیل بھی رہی ہیں۔

سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اب تک یہ علاقہ ایسے تبدیل ہوا ہے۔ اسرائیل کا علاقہ نیلے رنگ کا ہے جبکہ غربِ اردن پیلے رنگ میں ہے۔ فلسطینی غربِ اردن کو اپنی مستقبل کی ریاست کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں مگر اسرائیل وہاں جنگ کے بعد سے بستیاں تعمیر کر رہا ہے۔

خاکوں میں دیکھیے کہ یہ بستیاں کیسے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی ہیں۔ نیلے نقطے وہ بستیاں ہیں جنھیں اسرائیلی حکومت کی باضابطہ سرپرستی حاصل ہے۔

اسرائیلی بستیاں

سنہ 1967 سے 1987 تک غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کا نقشہ
اسرائیلی بستیاں

سنہ 1997 سے 2018 تک غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کا نقشہ

اس کے علاوہ چند ایسی بستیاں بھی ہیں جنھیں سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انھیں آؤٹ پوسٹ کہا جاتا ہے اور انھیں مندرجہ ذیل خاکوں میں شامل نہیں کیا گیا۔

غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 30 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ ان میں سے 86 فیصد فلسطینی ہیں جبکہ 14 فیصد (چار لاکھ 27 ہزار 800) لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں۔ یہ ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔

زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گذشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان کی حفاظت اسرائیل کی فوج کرتی ہے۔

اسرائیلی بستیاں پورے فلسطینی علاقے میں جابجا موجود ہیں۔ چوںکہ کئی بستیوں کی حفاظت اسرائیلی فوجی کرتے ہیں اور وہاں تک فلسطینیوں کو رسائی حاصل نہیں، اس لیے فلسطینی شہر ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں۔ نتیجتاً فلسطینی علاقوں میں ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کی ترقی مشکل بن جاتی ہے۔

سیٹلائٹ تصاویر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آبادیاں کیسے سال در سال بڑھتی رہی ہیں۔ سنہ 2004 میں چفعت زئيف‎ بستی میں 10 ہزار لوگ رہتے تھے مگر اب یہاں 17 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ یہ مغربی جانب پھیلتی گئی ہے، اور اس میں متعدد نئے گھروں، ایک کنیسا، اور ایک شاپنگ سینٹر کا اضافہ ہوا ہے۔

ان بستیوں کے حجم مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ میں تو صرف چند سو افراد رہتے ہیں۔ سب سے بڑی بستی موديعين عيليت ہے جس میں 73 ہزار 80 لوگ رہتے ہیں۔

گذشتہ 15 سالوں میں اس کی آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ڈیٹا ’پیس ناؤ‘ نامی ایک مہم جو گروپ نے اکٹھا کیا ہے جو ان بستیوں کا مخالف ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ان بستیوں کے مستقبل کے حوالے سے جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس کے ایک حصے کے مطابق اگلے چار سال تک کوئی نئی بستی تعمیر نہیں کی جانی چاہیے۔ تاہم اگر نئی بستیوں کی تعمیر نہ بھی ہو، تب بھی موجود بستیوں کی آبادی میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ ان بستیوں میں شرحِ پیدائش بہت زیادہ ہے۔

اسرائیلی بستیاں

غرب اردن کی اسرائیلی بستیوں میں رہنے والی خواتین فلسطینی اور یورپی خواتین سے زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں

ایک اوسط خاتون اسرائیلی آبادکار اب سات سے زیادہ بچے پیدا کر رہی ہے۔ اسرائیل میں پہلے ہی نسبتاً زیادہ شرحِ پیدائش ہے۔ وہاں اوسطاً ہر خاتون 3.1 بچے پیدا کرتی ہے جبکہ یورپی یونین میں یہ شرح 1.58 ہے۔

ان بستیوں میں تو شرحِ پیدائش اور بھی زیادہ ہے۔ موديعين عيليت کی ہی مثال دیکھیے، یہاں اسرائیل یا فلسطینی علاقوں سے بھی بلند شرحِ پیدائش ہے اور ہر خاتون کے اوسطاً 7.59 بچے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب غربِ اردن کے فلسطینی پہلے سے کہیں کم بچے پیدا کر رہے ہیں۔ یہاں فی خاتون اوسط 3.2 ہے۔ تاہم اس فرق کے آبادی پر اثرات ایک نسل سے پہلے نہیں دکھائی دیں گے۔

یہ بستیاں ایک ایسی زمین پر قائم ہیں جس پر فلسطینی اسرائیل کے ساتھ ایک مستقبل کی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کوئی ریاست تب تک نہیں بنا سکتے جب تک کہ تمام بستیاں ختم نہیں کر دی جاتیں۔

اسرائیلی بستیاں

اسرائیل کے زیر قبضہ غرب اردن میں عوفرا کی بستی کا منظر۔ اسرائیل کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بستیوں کی تعمیر جاری ہے

اسرائیلی غربِ اردن میں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟

کچھ لوگ اس لیے ان بستیوں میں رہتے ہیں کیونکہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے سبسڈی کا مطلب ہے کہ رہائش سستی ہے، چنانچہ وہ اپنے لیے ایک بہتر معیارِ زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔

کچھ لوگ یہاں مکمل طور پر مذہبی آبادی میں رہنے کے لیے منتقل ہوتے ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خدا نے عبرانی بائبل میں ان پر فرض کیا تھا کہ وہ اس علاقے میں آباد ہوں۔

آبادکار برادریوں میں سے ایک تہائی انتہائی قدامت پسند ہیں۔ ان آبادیوں میں اکثر خاندانوں کا حجم کافی بڑا ہوتا ہے اور وہ عموماً غریب ہوتے ہیں، چنانچہ یہاں بھی معیارِ زندگی کا بڑا عمل دخل ہے۔

مگر کچھ برادریاں تو یہاں آبادکاری کو ایک نظریہ تصور کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہاں رہنا ان کا حق ہے کیونکہ وہ اسے آبائی یہودی علاقہ تصور کرتے ہیں۔

ذیل میں ان بستیوں کی موجودہ صورتحال کا زیادہ تفصیلی نقشہ ہے۔ بشکریہ بتسیلم

دو ریاستی حل کون چاہتا ہے؟

اس خطے کو دو آزاد ممالک میں تقسیم کرنے کے حامیوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔ سنہ 2006 میں 71 فیصد فلسطینی اور 68 فیصد اسرائیلی اس تصور کے حامی تھے۔

سنہ 2018 میں صرف 44 فیصد فلسطینی اور 55 فیصد اسرائیلی اس کے حامی نظر آئے۔

اس کے بجائے 2018 میں 36 فیصد فلسطینیوں، 19 فیصد اسرائیلی یہودیوں اور 56 فیصد اسرائیلی عربوں نے فلسطین کے اسرائیل کے ساتھ ایک ریاست میں انضمام اور اسرائیل کی حمایت کی۔

اور دو ریاستی حل کے لیے بری خبر یہ ہے کہ یہ حل چاہنے والے نوجوانوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ اسرائیل میں 18 سے 24 سال کے صرف 27 فیصد لوگ ہی دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔

دو ریاستی حل کے لیے لوگوں کی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے

دو ریاستی حل کے لیے لوگوں کی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے

ذرائع

بستیوں کی آبادی کا ڈیٹا اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات اور یروشلم انسٹیٹیوٹ فار اسرائیل سٹڈیز سے حاصل کیا گیا جسے پیس ناؤ نامی تنظیم نے ایک ڈیٹا سیٹ کی شکل میں مرتب کیا۔

شرحِ پیدائش کا ڈیٹا اسرائیل کے اور فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات سے حاصل کیا گیا۔ آبادکار بستیوں کی شرحِ پیدائش کا تخمینہ کولمبیا یونیورسٹی میں اسرائیل اینڈ جیوئش سٹڈیز کے پروفیسر یینون کوہین نے لگایا ہے۔

دو ریاستی حل کے بارے میں لوگوں کے رویوں کا جائزہ پیلسٹینیئن سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ، اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ، اور تل ابیب یونیورسٹی کے تامی سٹائنمیٹز سینٹر فار پیس ریسرچ کے ایک مشترکہ سروے میں لیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp