جاپان کے ننجا میوزیم میں ’ننجا طرز‘ کی ڈکیتی


ننجا

جاپان میں ایک ننجا میوزیم میں ڈکیتی کا واقعہ ہوا ہے جس کے دوران چوروں نے دس لاکھ یین یا 7100 پاؤنڈ سے زیادہ کی ڈکیتی کی۔

وسطی جاپان میں ایگا ریو ننجا میوزیم دراصل ننجا کے مقبول گروہ ایگا کی تاریخ کے لیے بنایا گیا ہے۔

میوزیم نے جمعرات کو ایک بیان میں بتایا کہ پولیس کو اس وقت بلایا گیا جب پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے ایک الارم بجا تاہم یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تب تک یہ ڈکیت بھاگ چکے تھے۔

جب پولیس کے اہلکار وہاں پہنچے تو وہاں دروازے کو ایک آہنی سلاخ کی مدد سے کھولا گیا تھا اور 150 کلو کی تجوری غائب تھی۔

یومیوری اخبار کے مطابق ان ڈاکوؤں نے یہ سارا عمل صرف تین منٹ میں پورا کیا جو ان کی رفتار اور چالاکی کے بارے میں بتاتا ہے اور خاص کر ننجا اس بارے میں ضرور جانتے ہیں۔

مزید پڑھیے

نظر نہ آنے والا مضمون لکھنے پر جاپانی طالبہ کو اے گریڈ

’اگر میں جوان ہوتا تو کبھی نہ پکڑا جاتا‘

‘ایک خوبصورت اور مہذب لڑکی کا استقبال ہے’

میوزیم کے مطابق اس تجوری میں میوزیم میں سنیچر اور اتور کو داخل ہونے والے تقریباً 1100 افراد کی فیس موجود تھی۔

پولیس کا ماننا ہے کہ ڈاکو مقامی وقت کے مطابق ساڑھے پانچ بجے کے بعد ہی میوزیم کے اہلکاروں کی روانگی کا انتظار کرنے کے بعد اندر داخل ہوئے۔

اس مقبول سیاحتی مقام کے ذریعے سیاحوں ننجا کے زیرِاستعمال ہتھیاروں کے بارے میں معلومات اور ان کے استعمال کے طریقے سکھائے جاتے ہیں اور ننجا شوز بھی دیکھتے ہیں۔

ننجا کون ہوتے ہیں؟

جاپان میں شوگنز اور سامورئی کا دور بہت عرصے ختم ہو چکا ہے لیکن ملک میں اب بھی چند ایک ننجاز موجود ہیں۔ ننجاز دراصل جاسوسی اور خاموشی سے قتل کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

جاپان کے ننجا پراسرار کردار تھے جن کی خدمات بااثر سامورئی جنگجوؤں کی جانب سے جاسوسی، تخریب کاری اور مخالفین کو خاموشی سے قتل کرنے کے لیے لی جاتی تھیں۔

یہ ننجا سیاہ لباس میں ملبوس ہوتے تھے جو عموماً آنکھوں کے علاوہ ان کا تمام جسم ڈھانپ دیتے تھے اور یہ سائے میں مکمل طور پر غائب ہو جاتے تھے۔ اور پھر اس دوران یہ وار کیا کرتے تھے۔ یہ خاموش مگر ہلاکت خیز حملہ کرتے تھے۔

ننجا تلوار زنی کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ اپنے ہتھیاروں کو صرف کسی پر حملہ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ دیواریں پھلانگنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ تاکہ کسی قلعے تک رسائی حاصل کر سکے یا اپنے دشمنوں پر نظر رکھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp